اتر پردیش: پوروانچل میں بی جے پی کے لیے دردِ سر بن گئے ہیں راجبھر

پوروانچل کی سیاست میں اپنا بڑا قد رکھنے والے اوم پرکاش راجبھر کا کہنا ہے کہ ’’بی جے پی صرف وارانسی میں مضبوط ہے، باقی جگہ کا ریزلٹ دیکھ کر اس کا دماغ ٹھکانے آ جائے گا۔‘‘

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

آس محمد کیف

وارانسی: پوروانچل کی 26 لوک سبھا سیٹوں کے دَم پر ریاست میں بی جے پی اپنی ساکھ بچانے کو لے کر پرامید تھیں۔ لیکن وہاں بھی حالات خراب ہو گئے ہیں۔ اس کی وجہ پوروانچل میں مقبول اور انہی لوک سبھا سیٹوں پر نتیجہ خیز اثر رکھنے والی سہیل دیو بھارتیہ سماج پارٹی (ایس بی ایس پی) ہے جس نے کھلے طور پر بی جے پی سے بغاوت کر دی ہے۔

اتر پردیش کی حکومت میں شامل پارٹی کے لیڈر اوم پرکاش راجبھر سمیت ان کے دونوں ریاستی وزراء نے استعفیٰ دے دیا ہے۔ ناراض اوم پرکاش راجبھر نے اعلان کیا ہے کہ پوروانچل میں 30 سیٹ جیتنے والی بی جے پی اب اگر 3 سیٹیں جیت جائے تو وہ سیاست چھوڑ دیں گے۔


اوم پرکاش راجبھر کے مطابق بی جے پی صرف وارانسی میں مضبوط ہے باقی جگہ کا ریزلٹ دیکھ کر ان کا دماغ ٹھکانے آجائے گا۔ پوروانچل کی سیاست میں اوم پرکاش راجبھر کا ایک بڑا نام ہے۔ وہ راجبھر سماج کے لیڈر ہیں۔ صوبے کی حکومت میں وزیر ہیں۔ 2014 میں انھیں این ڈی اے میں شامل کیا گیا تھا جس کا بی جے پی کو 13 سیٹوں پر براہ راست فائدہ ملا تھا۔ 2017 کے اسمبلی انتخاب میں راجبھر کی پارٹی کے چار رکن اسمبلی جیت گئے جن میں سے تین کو وزیر بنایا گیا۔

اتر پردیش میں پانچ مرحلہ کے انتخاب ہو چکے ہیں۔ اب صرف دو مرحلہ باقی رہ گئے ہیں۔ ان مراحل میں بنارس اور اعظم گڑھ میں ووٹنگ ہونا باقی ہے جہاں نریندر مودی اور اکھلیش یادو بھی انتخاب لڑ رہے ہیں۔


اوم پرکاش راجبھر کی ناراضگی کا عالم یہ ہے کہ انھوں نے انتخابی کمیشن کو خط لکھا ہے کہ ان کی اجازت کے بغیر پی ایم نریندر مودی کے روڈ شو میں ان کی پارٹی کے جھنڈے کا استعمال کیا گیا۔ اس کے علاوہ لوک سبھا انتخاب میں ان کی تصویر کا بھی بی جے پی استعمال کر رہی ہے جو کہ نامناسب ہے۔

اوم پرکاش راجبھر اس سے قبل ایک تقریب کے دوران راہل گاندھی کی تعریف کر چکے ہیں۔ انھوں نے کہا تھا کہ جس راہل گاندھی کے لیے بی جے پی کے لوگ ناشائستہ زبان بولتے تھے اسی نے ان کی ہوا نکال دی ہے۔ وہ لگاتار صوبے میں افسروں کی منمانی کے خلاف بولتے رہے ہیں، ساتھ ہی وہ اسی حکومت میں وزیر رہتے ہوئے ڈی ایم کے خلاف دھرنے پر بیٹھ گئے تھے۔ اس بار انھوں نے 39 امیدوار کھڑے کیے ہیں جن میں سے راجبھر ذات کے 13 مضبوط امیدوار بی جے پی کے لیے دردِ سر بن گئے ہیں۔ سماجوادی سربراہ اکھلیش یادو نے تو اس قدم کے لیے راجبھر کی تعریف کرتے ہوئے انھیں ’خود دار‘ بتایا۔


سوال یہ ہے کہ اوم پرکاش راجبھر کی اس ضد کی آخر وجہ کیا ہے! لکھنؤ میں سیاسی معاملوں پر نظر رکھنے والے سجن شکلا کے مطابق پوروانچل میں راجبھر ووٹ بینک کی اجتماعیت ان کی طاقت ہے۔ انہی 26 سیٹوں پر 50 ہزار سے سوا دو لاکھ تک راجبھر ذات کا ووٹ ہے۔ 13 لوک سبھا سیٹ پر تو راجبھر ایک لاکھ سے زیادہ ہیں۔ راجبھر سماج بہرائچ ریاست کا قیام کرنے والے پاسی راجہ سہیل دیو راجبھر کے لوگ بتائے جاتے ہیں۔ ان میں سیاسی بیداری پیدا ہو گئی ہے۔

اوم پرکاش راجبھر اس سے پہلے بی ایس پی میں تھے اور 2002 میں انھوں نے اپنی پارٹی بنائی۔ اس وقت سے وہ پارلیمنٹ میں اپنی نمائندگی چاہتے ہیں۔ 2014 اور 2017 کے الیکشن میں انھوں نے بی جے پی کے ساتھ مل کر انتخاب لڑا تھا لیکن اب ناراضگی گہری ہو گئی ہے جو یقینی طور پر پوروانچل کے نتیجے کو اثرانداز کرے گی۔ بی جے پی کے لیڈروں نے ان پر قابل اعتراض تبصرے کیے ہیں۔


اوم پرکاش راجبھر کا الزام ہے کہ خود انھیں بی جے پی کے قومی صدر امت شاہ نے برباد کرنے کی دھمکی دی۔ اوم پرکاش راجبھر کہتے ہیں ’’ہمارا سماج انتہائی پسماندہ ہے، میں اپنے سماج کو اونچائی پر دیکھنا چاہتا ہوں، لیکن بی جے پی ایسا نہیں چاہتی۔ ہماری لڑائی وقار کی لڑائی ہے۔ ہم نے بی جے پی سے صرف ایک سیٹ مانگی تھی، انھوں نے کہا کہ آپ ہمارے انتخابی نشان پر الیکشن لڑ لو۔ ہم نے کہا کہ جب ہمارے پاس اپنی پارٹی اور اپنا جھنڈا ہے تو تمھارے جھنڈے کو کیوں اٹھائیں! ‘‘ راجبھر کہتے ہیں کہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ راجبھر سماج کا آدمی اپنے دَم پر ایوان میں پہنچے۔ ہم نے ان کی نیت جان لی ہے، اب انھیں سخت جواب دیں گے۔

اتر پردیش میں چھٹے مرحلے کے انتخاب میں سلطان پور، پھول پور، الٰہ آباد، ڈمریا گنج، بستی، سنت کبیر نگر، لال گنج، اعظم گڑھ، جون پور، مچھلی شہر اور بھدوہی میں الیکشن ہے جب کہ 19 مئی کو ساتویں مرحلہ کے دوران مرزا پور، رابرٹس گنج، وارانسی، غازی پور، گورکھپور، کشی نگر، دیوریا اور مہاراج گنج میں الیکشن ہے۔ ان میں سے ایک درجن سے بھی زیادہ سیٹوں پر راجبھر سماج کا زبردست اثر ہے۔ اوم پرکاش راجبھر نے اب گھوسی سے اپنے بیٹے اروند راجبھر کو الیکشن میں کھڑا کر دیا ہے۔


2014 میں اوم پرکاش راجبھر نے ہی نریندر مودی کو پی ایم بنانے کے لیے ’ایکتا منچ‘ تشکیل دی تھی، اور آج وہ پی ایم مودی کو ہی شکست دینا چاہتے ہیں۔ راجبھر کہتے ہیں کہ ’’ان لوگوں نے عوام کو ورغلانے کا کام کیا ہے۔ انھیں سمجھنا چاہیے کہ ہر بار کاٹھ کی ہانڈی نہیں چڑھ سکتی۔‘‘

2017 میں انھیں 7 اسمبلی سیٹ دی گئی تھی جن میں سے وہ 4 پر کامیاب ہوئے، حالانکہ وہ یوگی حکومت کو ہمیشہ تنقید کا نشانہ بناتے رہے۔ انھیں محکمہ فلاح و بہبود برائے پسماندہ طبقہ کا کابینہ وزیر بھی بنایا گیا۔ اوم پرکاش کہتے ہیں کہ ’’مجھے وزارتی عہدہ کا لالچ نہیں ہے، سماج کے لیے میں نے اسے لات مار دیا ہے۔ سماج کو اپنی ایسی آواز چاہیے جو آزاد ہو، لیکن بی جے پی اسے قید کر کے رکھنا چاہتی ہے۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔