اکیسویں صدی کا قائد راہل گاندھی

کانگریس پلینری اجلاس میں راہل گاندھی کی اختتامی تقریر، بی جے پی-آر ایس ایس کے دم گھونٹنے والے سیاسی ماحول میں تازہ ہوا کے جھونکے کی مانند۔

تصویر بشکریہ ٹوئٹر
تصویر بشکریہ ٹوئٹر
user

ظفر آغا

اتوار کو دہلی میں اختتام پذیر کانگریس کے 84ویں پلینری اجلاس کو ان دو جملوں میں بخوبی سمجھا جا سکتا ہے... پہلا، سونیا گاندھی کے بعد کانگریس کو راہل گاندھی کی شکل میں نیا لیڈر مل گیا ہے۔ اور دوسرا، ملک کو ایک ایسا لیڈر ملا ہے جو 21ویں صدی کے ہندوستان کو آگے لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ حالانکہ موجودہ سیاسی ماحول میں ایسا کہنا ذرا خطرناک معلوم ہوتا ہے، کیونکہ گاندھی فیملی سے نفرت کرنے والے لوگ مجھے ’چمچہ‘ کہتے ہوئے مجھ پر ٹوٹ پڑیں گے۔ یہاں تک کہ لبرل طبقہ بھی مجھے خاندان پرستی کا حامی قرار دے سکتا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ مودی کے دور کا ہندوستان نہ صرف لیفٹ جھکاؤ والے سنٹر سے ہٹ کر ہندوتوا پر مبنی سیاست کی طرف جھک گیا ہے بلکہ یہ جدیدیت سے دور ہو گیا ہے۔

کانگریس پلینری اجلاس میں راہل گاندھی کی اختتامی تقریر بی جے پی-آر ایس ایس کے اس ’باسی‘ سیاسی ماحول میں تازہ ہوا کے جھونکے کی مانند تھی کیوں کہ سنگھ اور بی جے پی کے لیڈر صرف ماضی کی تعریف کرتے نہیں تھکتے بلکہ یہ موب لنچنگ جیسے خطرناک سیاسی حربوں کا استعمال کرنے سے بھی بعض نہیں آتے۔

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اندرا گاندھی انڈور اسٹیڈیم کے اسٹیج سے کانگریس کارکنان اور ملک کو جن راہل گاندھی نے خطاب کیا، وہ ایک نئے راہل گاندھی نظر آئے۔ ان میں خوداعتمادی کے ساتھ ساتھ پختگی بھی تھی، نرم مزاجی کے ساتھ ساتھ غرور سے پاک جارحیت بھی تھی۔ ان کی تقریر میں مہذب ہندوستان کا وہ نظریہ تھا جو ہم سبھی ہندوستانیوں کو رنگارنگی کے ساتھ اپنی الگ پہچان دینے کی وکالت کرتا ہے۔

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ کانگریس کے بغیر ہندوستان کا تصور ادھورا ہے۔ اور یہ صرف اس لیے نہیں کہ کانگریس نے آزادی کی لڑائی لڑی اور آزادی حاصل کی بلکہ اس لیے کیونکہ کانگریس نے ہی ایک ایسے جدید ہندوستان کی بنیاد رکھی جو سب کے مفاد کو دھیان میں رکھتے ہوئے ہندوستان کی صدیوں پرانی لبرل قدروں میں بھی یقین رکھتی ہے۔

آج بی جے پی اور آر ایس ایس سے ہندوستان کے اس نظریہ کو خطرہ ہے جو صدیوں پرانی ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب پر قائم ہوا۔ ایسے بحران کے وقت میں ملک کو ایک ایسے لیڈر کی ضرورت ہے جو ان قدروں میں یقین رکھے اور اس کے ساتھ ساتھ کروڑوں ہندوستانیوں کو لبرلزم، سیکولرزم اور ملک کے آئین میں یقین رکھنے کا حوصلہ بخشے۔ پلینری اجلاس کے دوران راہل گاندھی میں ایک ایسے ہی لیڈر کی صلاحیت نظر آئی جو صف اول میں کھڑا ہو کر نوجوان ہندوستانیوں کی قیادت کر سکتا ہے جو نظریاتی طور پر کشمکش میں مبتلا ہیں اور جنہیں نریندر مودی کے جھوٹے وعدوں نے اپنے دام میں قید کر لیا۔ یہ نوجوان ترقی چاہتے ہیں۔ راہل گاندھی اس نوجوان نسل کی قیادت بخوبی کر سکتے ہیں۔

راہل گاندھی کی دی گئی تقریر میں تین اہم باتیں ابھر کر سامنے آئیں۔ پہلی بات یہ ہے کہ راہل نے بالکل واضح انداز میں کہا کہ آر ایس ایس-بی جے پی سے محض کسی ایک مذہبی فرقے کو ہی خطرہ نہیں ہے بلکہ یہ نظریہ پورے ملک کے لیے ایک سنگین خطرہ ہے۔ آج کے ماحول میں آر ایس ایس اور بی جے پی کے بارے میں اتنے واضح انداز میں ملک کو متنبہ کرنے کی ہمت کم لوگوں میں نظر آتی ہے، لیکن راہل نے یہ ہمت دکھائی۔

راہل گاندھی کا اس قدر واضح الفاظ میں سنگھ کے خلاف بولنا اس لئے بھی اور اہمیت کا حامل ہو جاتا ہے کیوں کہ انہوں نے اپنی دادی اور اپنی دادی کی قربانی خود دیکھی ہے۔ جو لوگ ڈر سکتے ہیں وہ لیڈر نہیں بن سکتے ۔ راہل کی بے باک تقریر سے یہ واضح ہو گیا کہ وہ اپنی نڈر دادی کی وراثت کے مالک ہیں۔ اس پس منظر میں ایک بات واضح ہے کہ ملک کو ایک ایسا لیڈر مل گیا جو آر ایس ایس اور بی جے پی کی نفرت کی سیاست کے خلاف بے خوف و خطر ہو کر محاذ آرائی سکتا ہے۔ اس ملک کے کروڑوں لوگوں کو ایسے ہی بے باک لیڈر کا انتظار تھا۔

راہل کی تقریر کی دوسری اہم بات یہ تھی کہ انہوں نے کانگریس کے تنظیمی ڈھانچے میں تبدیلی کی بات کھل کر کی۔ وہ کانگریس کو نہ صرف ایک جمہوری تنظیم بنانا چاہتے ہیں بلکہ باصلاحیت نوجوانوں کو پارٹی کے اہم عہدوں پر بھی فائز کرنا چاہتے ہیں۔ کانگریس صدر کے لئے یہ کام آسان نہیں کیونکہ پارٹی طویل مدت سے بغیر زمینی صلاحیت کے منیجروں کی گرفت میں رہی ہے۔

یہ وقت ہی بتائے گا کہ راہل ان پارٹی لیڈروں کو کس طرح نجات دلاتے ہیں جنھیں ’اولڈ گارڈ‘ کہا جاتا ہے۔ لیکن وقت کی ضرورت تو یہی ہے کہ کانگریس کو ایک جمہوری ڈھانچہ دیا جائے۔

تیسری بات جو تقریر سے ابھر کر سامنے آئی وہ یہ ہے کہ راہل ملک کی معیشت اور سیاست دونوں کو ’کرونی کیپٹلزم‘ یعنی سانٹھ گانٹھ والی سرمایہ داری سے نجات دلانا چاہتے ہیں۔ یہ کوئی چھپی ہوئی بات نہیں ہے کہ ’کرونی کیپٹلزم‘ ملک کی معیشت اور جمہوری نظام کے لیے سنگین بڑا خطرہ بن چکی ہےل۔ کیونکہ یہ کسی بھی پارٹی کے اقتدار میں آنے کے بعد اس کو اپنے قبضے میں کر لیتے ہیں اور ملک میں بدعنوانی کا بازار گرم ہو جاتا ہے۔

اس سلسلہ میں راہل گاندھی نے یو پی اے-2 حکومت کے آخری آخری دور پر بھی نکتہ چینی کرنے سے گریز نہیں کیا۔ یوں بھی سرمایہ داری کی نئی شکل آج کے دور کا سب سے بڑا بحران بن چکی ہے۔ اور اب وقت آ گیا ہے کہ اس راکچھس سے نمٹا جائے۔ راہل گاندھی میں اس راکچھس کے خلاف کھڑا ہونے کی ہمت بھی نظر آئی۔

دراصل راہل گاندھی نے اپنے لیے ایک خطرناک راستہ منتخب کیا ہے۔ تال کٹورا میں راہل گاندھی کی تقریر نے مجھ جیسے بہت سے لوگوں کو ان کے والد راجیو گاندھی کی اس تقریر کی یاد دلا دی جو انھوں نے 1985 میں ہوئے کانگریس کے ممبئی اجلاس میں دی تھی۔ اس وقت راجیو گاندھی نے کانگریس کارکنان اور دوسرے لوگوں کو متنبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ سسٹم کے ’مڈل مین‘ یعنی اقتدار کے دلالوں سے ملک کو آزاد کرنا چاہتے ہیں۔ اور انہی ’مڈل مین‘ یعنی اقتدار کے دلالوں نے راجیو گاندھی کی پیٹھ میں چاقو گھونپتے ہوئے بوفورس سودے کا جنّ کھڑا کیا تھا۔

راہل گاندھی کو اس خطرناک لابی کی سازشوں اور داؤ پیچ سے ہوشیار رہنا ہوگا۔ بقیہ کام تو اس ملک کی لبرل عوام اور غریب مل کر کریں گے، جو نفرت کی سیاست کے خلاف راہل گاندھی کے ساتھ شانہ بشانہ چلنے کو تیار ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 19 Mar 2018, 8:54 PM