کاشی کی ناراضگی دور کرنے خود سڑک پر اترے پی ایم مودی

آخری مرحلہ کی 54 سیٹوں کے لیے 54 گھنٹے تک بنارس میں ڈٹے رہے پی ایم مودی، اور پھر اکھلیش و راہل-پرینکا نے مودی کے علاقے میں بڑی ریلی و روڈ شو کر کے پیش کر دیا چیلنج۔

وزیر اعظم نریندر مودی
وزیر اعظم نریندر مودی
user

قومی آواز بیورو

وارانسی: یوپی میں آخری مرحلے کے اسمبلی انتخاب کو لے کر صبح بنارس کے موسم میں سیاسی دھند چھائی ہوئی ہے۔ زندہ دلی اور بے لوث پن مزاج کے ساتھ جینے والے اس شہر کی معمولات چائے پانی کی دکان سے ہی شروع ہوتی ہے۔ وہیں پر ملک و دنیا میں چل رہی سیاست پر گرما گرم بحث بھی جاری ہے۔ روزناہ کی طرح کمچھا واقع گووند سردار کی دکان پر صبح آٹھ بجے بنارسی کچوڑی-سبزی کھانے کے لیے آس پاس کے لوگ اور تمام خبریہ چینلوں کے رپورٹر موجود تھے۔ جلیبی کے انتظار میں کھڑے کچھ لنگی پہنے نوجوانوں کو دیکھ ایک رپورٹر نے پرجوش ہو کر پوچھ لیا، ’کل کے روڈ شو کے بعد سے کا ماحول ہے‘۔ نوجوان نے فوراً جواب دیا ’ابھی تک تو ایہاں ایکے ماحول رہتے رہے، مگر ابکی دیکھت ہو کہ بی جے پی کے لوگ پریشان ہین‘، یعنی ابھی تک بنارس میں بی جے پی کا ماحول رہا ہے، لیکن اس بار بی جے پی کے لوگ پریشان ہیں۔ رپورٹر نے مودی کے روڈ شو میں ہوئی بھیڑ کا حوالہ دیا، تو کچوڑی چھان رہے گووند سردار بولے ’ایہا سب کچھ مودیے پر ہو، ناہی تو امیدوار لوگن کے اب کی کوئی پوچھت بھی ناہی‘ (سبھی کو مودی پر یقین ہے، ورنہ اس بار امیدواروں کو کوئی پوچھتا بھی نہیں)۔

شاید بنارس کی سیاست کی ایک تلخ سچائی یہ بھی ہے۔ آخری مرحلے کے انتخابی چکرویوہ کا آخری دروازہ کھولنے کے لیے سبھی پارٹیوں کی امید اب کاشی پر مرکوز ہے۔ پارٹیوں کو لگتا ہے کہ بنارس سمیت پوروانچل کی 54 سیٹیں اگر جھولی میں آ گئیں تو لکھنؤ کے اقتدار کے دروازے کھلنے طے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آخری مرحلہ کی ووٹنگ کے 48 گھنٹے پہلے سبھی پارٹیوں کے سیاسی قدآور نے کاشی میں ڈیرا ڈال دیا اور روڈ شو، ریلی و جلسہ کے ذریعہ حامیوں، کارکنان میں جوش جگا کر یہ پیغام دینے کی کوشش کی کہ اقتدار میں آنے کے بعد وہ وارانسی سمیت پوروانچل کی تقدیر بدلنے میں کوئی کور کسر نہیں چھوڑیں گے۔ ساتویں مرحلہ کے انتخاب کو بی جے پی کس طرح سنجیدگی سے لے رہی ہے، اس کا اندازہ اسی سے لگایا جا سکتا ہے کہ خود وزیر اعظم نریندر مودی نے انتخابی پالیسی کو اپنے ہاتھ میں لے لیا اور آخری مرحلہ کی 54 سیٹوں پر ہونے والی سیاسی جنگ ’مشن 54‘ کے لیے انھوں نے 54 گھنٹے تک بنارس میں ہی گزارے۔


کہتے ہیں کہ لکھنؤ کے اقتدار کا راستہ کاشی و پوروانچل سے ہو کر گزرتا ہے۔ ایسے میں اپوزیشن پارٹیوں میں سماجوادی پارٹی کے مکھیا اکھلیش یادو اور کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی اور پرینکا گاندھی واڈرا نے کاشی سے ہو کر گزرنے والے جیت کے راستے پر چلنے سے کوئی گریز نہیں کیا۔ اکھلیش یادو نے مودی کے قلعہ میں اپنی سبھی معاون پارٹیوں کے لیڈروں کے ساتھ بڑا جلسہ کر ڈالا۔ اس ریلی میں ممتا بنرجی، رام گوپال یادو، شیوپال یادو کے علاوہ ساتھی پارٹیوں کے لیڈران جینت چودھری، اوم پرکاش راجبھر، کرشنا پٹیل کی موجودگی نے یہ پیغام دے دیا کہ بنارس سمیت پوروانچل میں بی جے پی کی راہ آسان نہیں ہوگی۔

پوروانچل کی سیاست پر قریب سے نظر رکھنے والے وجئے نارائن کہتے ہیں کہ سال 2014، 2017 اور 2019 میں بی جے پی کی جیت کا سہرا وزیر اعظم مودی کے سر ہی بندھا تھا۔ مشن 2022 کو پورا کرنے کے لیے وزیر اعظم اب تک چھ مراحل میں ہر علاقے میں انتخابی ریلیاں کر چکے ہیں۔ اس بار سماجوادی پارٹی، بہوجن سماج پارٹی اور کانگریس کے انتخابی چکرویوہ کو پار کرنے کی کوشش میں وزیر اعلیٰ ان کے ساتھ ہیں۔ ایسے میں دیکھنے والی بات یہ ہوگی کہ کاش ماڈل کتنا کارگر رہا۔ کیونکہ کاشی ماڈل کو بی جے پی انتخاب کے پہلے ہی شاندار طریقے سے پوری ریاست میں پیش کرتی رہی ہے۔ اسے ایودھیا کے بعد کاشی، متھرا کے ایجنڈے میں پارٹی کے آگے بڑھنے کی سمت میں اہم قدم مانا گیا۔ اب ذات پات کے قدآور لیڈروں کو انہی کے علاقے میں گھیرنے کے لیے بی جے پی کے مضبوط لیڈر وزیر داخلہ امت شاہ، وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ، مرکزی وزیر اسمرتی ایرانی، گری راج سنگھ، نائب وزیر اعلیٰ دنیش شرما، نائب وزیر اعلیٰ کیشو موریہ، بی جے پی سربراہ جے پی نڈا، مرکزی وزیر دھرمیندر پردھان سمیت تمام لیڈر بنارس میں رہ کر پوروانچل کو ہدف بنا رہے ہیں۔


دراصل 10 دن پہلے تک بی جے پی امیدواروں کے طریقہ کار اور رویہ کو لے کر کارکنان اور عوام میں اندر ہی اندر گہری ناراضگی تھی۔ تقریباً 30 سالوں سے بی جے پی سے جڑے کشور شرما کہتے ہیں کہ بڑے لیڈروں کے سامنے بھلے ہی عہدیدار یا کارکنان کھل کر بات نہ کریں، لیکن یہاں انتخابی تشہیر کرنے پہنچے لیڈروں کو یہ اندازہ ہو گیا ہے کہ کاشی میں سب کچھ ٹھیک ٹھاک نہیں چل رہا ہے۔ یہی وجہ رہی کہ گزشتہ ایک ہفتہ سے بڑے لیڈروں کو شہر جنوب اور کینٹ اسمبلی علاقے میں چھوٹے چھوٹے گروپ میں گفتگو کرنی پڑی۔ لاکھ کوششوں کے باوجود کارکنان، حامیوں کی ناراضگی، غصے اور اشتعال کو دور نہیں ہونے کی حالت میں پی ایم مودی کو خود کمان سنبھالنی پڑی۔

دشاشومیگھ کے راج ناتھ تیواری کہتے ہیں کہ سال 2019 میں وزیر اعظم مودی جب لوک سبھا انتخاب کی نامزدگی کرنے پہنچے تھے تب انھوں نے کہا تھا کہ ان کا انتخاب کاشی کی عوام لڑے گی۔ کاشی کے لوگوں نے مودی کو پانچ لاکھ سے زیادہ ووٹوں سے جتا کر ان کے اعتماد اور بھروسے کو قائم بھی رکھا۔ لیکن اس بار اسمبلی انتخاب میں امیدواروں کو لے کر جو ناراضگی تھی، اسے پی ایم مودی نے اپنے روڈ شو کے ذریعہ دور کر دیا۔ روڈ شو کے دوران پارٹی عہدیداران کو پُرجوش کارکنان کو سنبھالنے میں مشکلیں پیش آئیں۔ کاروباری ونے رائے کہتے ہیں کہ لوگوں کی ناراضگی امیدوار سے ہے، اپنے رکن پارلیمنٹ پی ایم مودی سے نہیں۔ ہر بار کی طرح کارکنان اور کاشی کی عوام اپنی ناراضگی دور کرنے کے لیے سڑک پر اتر کر پی ایم مودی کے ساتھ نظر آئی۔ ملدہیا واقع سردار بلبھ بھائی پتیل کے مجسمہ پر مالاپوشی کرنے پی ایم مودی جب پہنچے تو پورے علاقے میں بھیڑ تھی۔ لہورابیر پہنچتے پہنچتے بھیڑ کا کارواں بڑھتا گیا۔ کل تک ناراضگی دور کرنے کے لیے چھوٹی چھوٹی میٹنگیں کر رہے مودی کے سپہ سالاروں کو اندازہ تک نہیں تھا کہ کاشی کے لوگوں میں مودی کو لے کر کس طرح کا لگاؤ ہے۔ ماہرین اس تبدیلی کو بی جے پی کے حق میں سب سے بڑی سیاسی فتح مان رہے ہیں۔ ہر بار کی طرح پی ایم مودی کاشی وشوناتھ مندر میں دَرشن پوجن کیا اور ڈمرو بجا کر یہ پیغام دینے کی کوشش کی کہ بی جے پی اپنے مذہبی ایجنڈے کو پورا کرنے کے لیے کبھی پیچھے نہیں ہٹے گی۔


رامپوری کالونی باشندہ سینئر وکیل ڈاکٹر پیوش مشر اسے دوسرے نظریے سے دیکھتے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ آٹھ سالوں میں وزیر اعظم اپنی مدت کار کے دوران بنارس کے کارکنان سے کئی بار اجتماعی طور سے گفتگو کی ہوں گی، لیکن کارکنان کے دل و دماغ میں پی ایم مودی سڑک پر ان کے سب سے قریب ہو پاتے ہیں۔ کاشی ودیاپیٹھ کے ریسرچ اسٹوڈنٹ املیش یادو 2017 اور 2019 کے روڈ شو کی یاد دلاتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ انتخابی مہم کا سب سے مثبت حصہ ہے۔

بی ایچ یو پالٹیکل سائنس محکمہ کے سربراہ پروفیسر کوشل کشور مشر کہتے ہیں کہ اسّی پر پپو کی اڈی پر پی ایم مودی کا روڈ شو کو روک کر چائے پینا اور لوگوں سے عام آدمی کی طرح بات کرنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ کاشی کے تئیں ان کا لگاؤ کتنا ہے۔ وہیں چائے پلانے والے دکاندار منوج کمار خود کو خوش قسمت مانتے ہیں۔


بہر حال، آخری مرحلے کا انتخاب وارانسی کے علاوہ چندولی، غازی پور، جونپور، بھدوہی، سونبھدر، مئو ضلع میں ہونا ہے۔ اسی مرحلہ میں زورآور لیڈروں کے علاوہ نصف درجن سابق اور موجودہ وزراء کا وقار بھی داؤ پر لگا ہے۔ زور آور لیڈر مختار انصاری کا بیٹا عبداللہ انصاری، زور آور لیڈر وجے مشر، سشیل سنگھ، کانگریس کے سابق رکن اسمبلی اجے رائے کا سیاسی مستقبل طے ہوگا۔ اس کے علاوہ صبے کے کابینہ وزیر انل راجبھر، وزیر نیل کنٹھ تیواری، وزیر رویندر جیسوال، وزیر سنگیتا بلونت، سابق وزیر سریندر سنگھ پٹیل، سابق وزیر اوم پرکاش سنگھ، سابق وزیر اوم پرکاش راجبھر سمیت تمام سرکردہ لیڈروں کا وقار بھی داؤ پر لگا ہوا ہے۔ وارانسی میں آٹھ اسمبلی حلقے ہیں۔ گزشتہ بار بی جے پی اور اس کی ساتھی پارٹیوں نے سبھی سیٹوں پر جیت حاصل کی تھی۔ اس بار سہیل دیو بھارتیہ سماج پارٹی الگ ہو گئی ہے۔ بی جے پی اس بار سبھی سیٹوں پر جیت حاصل کی تھی۔ اس بار سہیل دیو بھارتیہ سماج پارٹی الگ ہو گئی ہے۔ بی جے پی اس بار سبھی سیٹوں پر جیت حاصل کرنے کے لیے پورا زور لگائے ہوئی ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ اس انتخاب میں اَپنا دل (ایس) اور نشاد پارٹی کی انتخابی دوستی کا بھی امتحان اسی مرحلہ میں ہونا ہے۔ وہیں سماجوادی پارٹی کے اتحاد ایس بی ایس پی (سہیل دیو بھارتیہ سماج پارٹی) اور مہان دَل کا امتحان بھی آخری مرحلہ کے انتخاب میں ہونے جا رہا ہے۔

اس درمیان بابا وشوناتھ کے دربار میں بھی قدآور لیڈروں کا پہنچنا جاری ہے اور یہاں پہنچ کر سیاستداں جیت کی دعا مانگ رہے ہیں۔ وزیر اعظم نریندر مودی کے بعد راہل گاندھی اور پرینکا گاندھی بھی یہاں پہنچے۔ دونوں لیڈر گودولیا چوراہا سے مندر تک تقریباً ایک کلومیٹر پیدل چل کر بابا دربار پہنچے۔ رات میں روڈ شو ختم کرنے کے بعد اکھلیش یادو بھی وشوناتھ دھام پہنچے اور انھوں نے یوپی کے اقتدار میں واپسی کے لیے بابا وشوناتھ سے آشیرواد کی خواہش ظاہر کی۔

(ارون مشرا کی رپورٹ)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔