اب سَوال کرنا ہی نہیں، متوجہ کرنا بھی غداری

موب لنچنگ کے خلاف پردھان سیوک مودی کو خط لکھ کر ان کی توجہ مبذول کرانے والوں پرغداری کا مقدمہ درج ہونا اس بات کا اعلان ہے کہ اب اس ملک سے جمہوریت رخصت ہوچکی ہے اور اب یہاں ڈکٹیٹرانہ نظام نافذ ہوچکا ہے

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

اعظم شہاب

اعظم شہاب

گزشتہ ماہ میں نیویارک میں یو این او کے جنرل اسمبلی میں امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے پردھان سیوک نریندرمودی کو ’فادر آف انڈیا‘ کیا کہہ دیا کہ موصوف سچ میں خود کو فادر آف انڈیا سمجھنے لگ گئے۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو ابھی تک موصوف موب لنچنگ پرخط لکھ کر انہیں متوجہ کرنے والوں پر ملک سے غداری کا مقدمہ درج ہونے پر اظہار رائے کی آزادی کا حوالہ دے چکے ہوتے۔ یہ بات سبھی کو معلوم ہے کہ پردھان سیوک جی کو ’پرشن‘ بہت ناگوار گزرتے ہیں اور وہ اپنی حکومت کو کسی بھی طرح کے سوالات یاجوابدہی سے ہی نہیں بلکہ آئین وقانون سے بھی بالاتر تصور کرنے لگے ہیں۔ لیکن شاید یہ ملک کے سامنے ایک نیا انکشاف ہے کہ موصوف کسی امر کی جانب خود کو یا خود کی حکومت کو متوجہ کیے جانے کو بھی سخت ناپسند فرماتے ہیں۔ جدید انڈین ڈکشنری میں اسے ’فقیری‘ کہتے ہیں اور جس کا مفہوم ہوتا ہے ’سب کا ساتھ، سب کا وکاس اور سب کا وشواش‘۔

اسی سال جولائی میں 50 سے زائد دانشوروں نے پردھان سیوک کی توجہ ملک میں بڑھتی موب لنچنگ کی جانب مبذول کرانے کی کوشش کی تھی۔ یہ الگ بات ہے کہ اس کے چند روز بعد ہی فلم انڈسٹری سے جڑے 90 سے زائد لوگوں نے پردھان سیوک کو ایک دوسرا خط لکھ کر ان کی حمایت کرتے ہوئے مذکورہ دانشوران پر تنقید کی تھی، جس پر بھکتوں کی جانب سے خوب تالیاں بجائی گئی تھیں۔ حکومت کی چاپلوسی کرنے والی میڈیا اس معاملے پر کچھ اس طرح بلبلا اٹھی تھی گویا سانپ کی دم پر پیر پڑ گیا ہو۔ یہ اس بات کا ثبوت تھا کہ جن امور پر مودی حکومت کی توجہ مبذول کرائی تھی، وہ واقعتاً وقوع پذیر ہو رہے تھے اور حکومت کی خاموشی اس معاملے میں ایک خاص منصوبہ بندی کی حصہ تھی۔ شاید اسی لئے بجائے ان امور پر قابو پانے یا انہیں روکنے کی کوشش کرنے کے بی جے پی کی جانب سے اسے ٹکڑے ٹکڑے گینگ والوں کی جانب سے حکومت کو بدنام کرنے کی کوشش قرار دیا گیا۔ انہیں اربن نکسل تک کہا گیا اور اسے حکومت کو بدنام کرنے کی ایک کوشش بتایا گیا۔


حکومت کو خط لکھنے والے دانشوران کے خلاف ملک سے غداری کا جومقدمہ درج ہوا ہے، اس نے کئی سوالات پیدا کر دیئے ہیں۔ سب سے پہلا سوال کہ ملک اب کس سمت جارہا ہے کہ اب حکومت سے سوال کرنا تو دور، متوجہ کرنا بھی غداری قرار پا رہا ہے؟ کیا ہم ایک ایسی ایمرجنسی کے دور میں نہیں جی رہے ہیں جہاں حکومت کی فاش غلطیوں اور کوتاہیوں پر متوجہ کرنا بھی ملک سے غداری بن جائے؟ سوال یہ بھی کہ کیا مودی حکومت خود کو آئین وقانون سے بالاتر تصور کرنے لگے ہیں کہ وہ اب خود پر تنقید بھی نہیں برداشت کر پا رہی ہے؟ اگرایسا نہیں ہے تو پھر ہمارے اسی آئین میں اظہار رائے کی بھی آزادی ہے اور اسے بنیادی حقوق میں شمار کیا جاتا ہے۔ پھر اگر کوئی شخص اپنے اس حق کا آزادانہ استعمال کرنا چاہتا ہے تو وہ بھلا غدار کیونکر ہوسکتا ہے؟ اس صریح غیرآئینی عمل پر جس پر عدالتی فیصلے کی مہر لگائی گئی ہے، کیا ملک کے سربراہ کی حیثیت سے مودی کی ذمہ داری نہیں ہوتی ہے کہ ایسے لوگوں کو تحفظ فراہم کریں اور ان کی آراء کا احترام کریں۔ لیکن یہاں تو ان کی معروضات پر توجہ دینے کے بجائے، ہودنگڑوں کی ایک پوری ٹیم ان کے پیچھے لگا دی جا رہی ہے کہ انہیں پہلے عوامی پلیٹ فارم پر ملک دشمن قرار دیں اور پھر ان کا میڈیا ٹرائل کرکے انہیں اربن نکسل ثابت کریں۔

گزشتہ ماہ مہاراشٹر کے وزیراعلیٰ دیوندر فڑنویس کی اہلیہ امرتا فڈنویس نے پردھان سیوک کو یومِ پیدائش کی مبارک باد دیتے ہوئے انہیں ’فادرآف کنٹری‘ کہا تھا جس کے بعد ٹوئٹر پر وہ خوب ٹرول ہوئی تھیں، لیکن اب ایسا لگ رہا ہے کہ اس طرح کے سوشے مودی حکومت کی ایماء پر چھوڑے جا رہے ہیں تاکہ عوام کے ذہن اس بات کو قبول کرنے لگ جائیں کہ مودی ہی دراصل انڈیا ہیں اور انڈیا ہی دراصل مودی ہیں۔ پردھان سیوک کی تقریروں میں بار بار 130کروڑ لوگوں کے ذریعے منتخب کیے جانے کا حوالہ تو آپ نے بارہا سنا ہوگا، جبکہ ملک کے 130کروڑ لوگوں میں سے تقریباً نصف فیصد لوگوں نے دیگر پارٹیوں کے امیدواروں کا بھی انتخاب کیا تھا۔ خود کو پورے ملک کا وزیراعظم کہلانا توسمجھ میں آتا ہے، لیکن پورے ملک کے ذریعے منتخب کیا جانا سمجھ سے بالاتر ہے۔ یہ سب اس تصور کو مضبوط کرنے کی سمت ایک قدم ہے جس کا اظہار ڈونالڈ ٹرمپ نے کیا تھا۔


اب سَوال کرنا ہی نہیں، متوجہ کرنا بھی غداری

موب لنچنگ کے خلاف مودی کو خط لکھنے والے دانشوران پر ملک سے غداری کا مقدمہ درج کیے جانے سے اس بات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ملک کس سمت جارہا ہے۔ یہ بات اب مکمل طور پر واضح ہوچکی ہے کہ یہاں حکومت کی کسی کوتاہی یا کسی غلطی پر اگر آپ نے کوئی تنقید کی یا حکومت کو آئینہ دکھانے کی کوشش کی تو آپ ملک کے غدار قرار دیئے جارہے ہیں۔ مودی جی کو لفظ ’پہلی بار‘ سے بہت محبت ہے اور ہو بھی کیوں نہ کہ یہ آزاد ہندوستان کی تاریخ میں پہلی بار ہورہا ہے کہ حکومت سے سوال کرنے یا بھیڑ کے ذریعے کسی کو موت کے گھاٹ اتار دینے پر حکومت کی توجہ مبذول کرانے پر ملک سے غداری کا مقدمہ درج ہو رہا ہے۔ اس اہم اور تاریخی ’اپلبدھی‘ پر ہم مودی حکومت کو مبارکباد پیش کرتے ہیں۔ بہت ممکن ہے کہ جو لوگ اخبارات میں حکومت کی غلط پالیسوں کی نشاندہی کرتے ہیں، وہ بھی ملک سے غداری کے الزامات کے گھیرے میں آجائیں۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو پھر یہ بات تسلیم کرنے میں ہمیں کوئی تردد نہیں ہونی چاہیے کہ اس ملک سے آئین وقانون کی حکمرانی حقیقی معنوں میں ختم ہوچکی ہے اور یہاں جمہوری نہیں بلکہ ڈکٹیٹرانہ نظام نافذ ہوچکا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 06 Oct 2019, 8:18 PM