کیا ہندوستان کا سیکولر کردار ختم ہو گیا؟... سہیل انجم

مبصرین کا خیال ہے کہ نریندر مودی نے آر ایس ایس کی مدد سے اس ملک کی سیاست بدل کر رکھ دی ہے۔ اب یہاں کی سیاست میں ایک خاص مذہب کو بے انتہا اہمیت حاصل ہو گئی ہے۔

نریندر مودی اور یوگی آدتیہ ناتھ
نریندر مودی اور یوگی آدتیہ ناتھ
user

سہیل انجم

جو نتائج سامنے آئے ہیں وہ اس جانب اشارہ کر رہے ہیں کہ اب اس ملک سے سیکولرزم کا جنازہ بس اٹھنے ہی والا ہے۔ بلکہ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ اُٹھ گیا ہے اور بڑی دھوم دھام سے شمشان گھاٹ کی طرف لے جایا جا رہا ہے۔

جب پانچ ریاستوں اور بالخصوص اترپردیش میں اسمبلی انتخابات کا آغاز ہوا تو جہاں بہت سی باتیں زیر بحث رہیں وہیں یہ بھی کہا جا رہا تھا کہ یہ الیکشن اس بات کا فیصلہ کرے گا کہ ہندوستان ایک سیکولر ملک کی حیثیت سے زندہ رہے گا یا اکثریت پسندی اور مذہبی جارحیت کی راہ پر گامزن ہو جائے گا۔ اس ملک میں سیکولرزم زندہ رہے گا یا نام نہاد ہندوتوا کی مبنی بر تقسیم سیاست کا بول بالا ہوگا۔ بالآخر انتخابی نتائج آگئے اور جن اندیشوں کا اظہار کیا جا رہا تھا وہ درست پائے گئے۔ جو نتائج سامنے آئے ہیں وہ اس جانب اشارہ کر رہے ہیں کہ اب اس ملک سے سیکولرزم کا جنازہ بس اٹھنے ہی والا ہے۔ بلکہ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ اٹھ گیا ہے اور بڑی دھوم دھام سے شمشان گھاٹ کی طرف لے جایا جا رہا ہے۔


اس کی وضاحت یوں کی جا سکتی ہے کہ انتخابی مہم کے دوران دو قسم کے خیالات پائے جا رہے تھے۔ ایک یہ کہ اس ملک کو بہرحال ایک سیکولر ملک بنے رہنا چاہیے اور دوسرے یہ کہ اسے ایک خاص مذہب کے پیرووں کا ملک بننا چاہیے یا بہ الفاظ دیگر ہندو راشٹر میں تبدیل ہو جانا چاہیے۔ ملک کے بہت سے دانشورں اور سیاسی مبصروں کا یہ خیال تھا اور اب بھی اس ملک میں اگرچہ ایک خاص مذہب کی سیاست کا بول بالا ہو گیا ہے لیکن اب بھی ایسے لوگوں کی بہت بڑی تعداد ہے جو سیاست میں مذہب کی آمیزش کے خلاف ہے اور جو کسی بھی قیمت پر ہندوستان کو ہندو اسٹیٹ کی شکل میں دیکھنا نہیں چاہتی۔

جب ملک آزاد ہوا تو اس وقت بھی یہ دو دھارے موجود تھے۔ کچھ لوگ چاہتے تھے کہ جب مذہب کی بنیاد پر پاکستان بن گیا اور اسے ایک اسلامی ملک قرار دیا گیا ہے تو پھر ہندوستان کو ایک ہندو ملک قرار دیا جائے۔ لیکن اس وقت مہاتما گاندھی، پنڈت جواہر لعل نہرو، مولانا ابولکلام آزاد اور ایسے جانے کتنے رہنما تھے جو اس ملک کو ایک سیکولر ملک بنانے کے خواہشمند تھے۔ ایسی شخصیات میں بابا صاحب بھیم راؤ امبیڈکر بھی شامل تھے۔ بالآخر ہندو اسٹیٹ کی مخالفت کرنے والے کامیاب ہوئے اور ایک ایسا آئین تخلیق کیا گیا جس میں کسی خاص مذہب کو برتری حاصل نہیں تھی بلکہ تمام مذاہب کو یکساں سمجھا گیا اور یہ اعلان کیا گیا کہ ہندوستان کی حکومت کا کوئی مذہب نہیں ہوگا۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ تمام مذاہب کی دشمن ہوگی۔ بلکہ اس کا مطلب یہ تھا کہ حکومت تمام مذاہب کا یکساں احترام کرے گی۔ اور اس کے ساتھ ساتھ تمام مذاہب کے ماننے والوں کو اپنے مذہب پر چلنے اور اس کی تبلیغ و تشہیر کی آزادی ہوگی۔


آزادی کے بعد کئی دہائیوں تک بلکہ جب تک کانگریس کی حکومت رہی، ہندوستان اسی روش پر گامزن رہا۔ لیکن اسی درمیان 1925 میں قائم ہونے والی ہندو احیا پسند جماعت آر ایس ایس کی جانب سے ہندوستان کو ہند اسٹیٹ بنانے کی تیاریاں اندر ہی اندر چلتی رہیں۔ جب 1977 میں جنتا پارٹی کی حکومت قائم ہوئی تو اس میں ایسے بہت سے لیڈرس بھی شامل تھے جو آر ایس ایس کے ممبر رہ چکے تھے۔ وہی آر ایس ایس جس پر ہندوستان کے پہلے وزیرر داخلہ سردار پٹیل نے پابندی لگائی تھی۔ حالانکہ آج آر ایس ایس اور بی جے پی کے لوگ اپنی سیاسی موقع پرستی کی خاطر پٹیل کو اپنا بنانے اور دکھانے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کے سیاسی نظریات بھی آر ایس ایس کے نظریات کے خلاف تھے۔ بہر حال جنتا حکومت گر گئی اور اس کے گرنے کی ایک وجہ بعض وزارا کی دوہری رکنیت یعنی حکومت میں شمولیت اور آر ایس ایس سے وابستگی بھی رہی۔

اس کے بعد ایودھیا میں رام جنم بھومی کی تحریک شروع ہوئی اور اس نے فسادات کے ساتھ ساتھ ملک میں نفرت کا زہر پھیلانے کے علاوہ ہندو راشٹر کے قیام کا بھی راستہ ہموار کرنا شروع کر دیا۔ قصہ کوتاہ یہ کہ بابری مسجد منہدم کر دی گئی اور پھر عدالت کا سہارا لے کر اسے رام مندر کی تعمیر کے لیے وقف کر دیا گیا۔ آج بابری مسجد کے مقام پر رام مندر کی تعمیر ہو رہی ہے۔ ایودھیا تحریک نے جو راہ ہموار کی تھی اس پر بی جے پی چلتی رہی اور بالآخر 2014 میں گجرات کے اس وقت کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی کو بی جے پی کی جانب سے وزیر اعظم کے عہدے کا امیدوار بنا دیا گیا۔ انھوں نے زبردت محنت کی اور آر ایس ایس کی پوری طاقت ان کے پشت پر رہی۔ کیونکہ آر ایس ایس کو معلوم تھا کہ اگر مودی کی قیادت میں بی جے پی کی حکومت بن گئی تو اسے ہندو اسٹیٹ کی راہ پر گامزن کرنے میں کوئی دشواری نہیں ہوگی۔


بہرحال بی جے پی 2014 کے بعد 2019 میں بھی کامیاب ہو گئی۔ اس کی کامیابی کے متعدد اسباب تھے جن پر یہاں روشنی ڈالنے کی گنجائش نہیں ہے۔ مودی حکومت کے دورِ اول میں ہندوستان کو ہندو راشٹر بنانے کی عملاً بنیاد ڈالی گئی اور دورِ دوم میں اس پر عمارت تعمیر کرنے کا عمل شروع ہو گیا۔ آر ایس ایس اور بی جے پی دونوں کو اس حقیقت کا ادراک تھا اور ہے کہ ہندوستان کو اس وقت تک ہندو اسٹیٹ میں تبدیل نہیں کیا جا سکتا جب تک کہ ملک پر ایک عرصے تک حکومت کرنے اور سیکولرزم پر چلنے والی کانگریس پارٹی موجود ہے۔ لہٰذا سنگھ پریوار کی جانب سے کانگریس کو کمزور کرنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی جس میں وہ بڑی حد تک کامیاب ہے۔

ادھر نریند رمودی نے خود کو مکمل طور پر ایک ہندو وزیر اعظم کے طور پر پیش کیا ہے۔ اس کے لیے جو بھی ضروری ہوا انھوں نے کیا۔ خواہ ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کا راستہ ہموار کرنا ہو یا پھر ان کی جانب سے رام مندر کی تعمیر کا افتتاح کرنا ہو۔ کاشی وشوناتھ کاریڈور کی تعمیر ہو یا پھر انہی کے ہاتھوں اس کا افتتاح ہو۔ انھوں نے خود کو ہندو رہنما اور ہندو وزیر اعظم کی حیثیت سے پیش کرنے میں کبھی کوئی شرمندگی یا ندامت محسوس نہیں کی۔ کیونکہ ان کو معلوم ہے کہ وہ اگر یہ سب نہیں کریں گے تو ان کے نیچے سے کرسی کھینچ لی جائے گی۔ صرف ہندو مذہب کے پروگرام ہی نہیں کیے جا رہے ہیں بلکہ ایسے فیصلے بھی کیے جا رہے ہیں جو اس مقصد کے حصول میں معاون ہوں۔


اس کے لیے یہ بھی ضروری تھا کہ مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے خلاف ماحول بنایا جائے اور یہ پروپیگنڈہ کیا جائے کہ اب تک کی جو حکومتیں تھیں وہ ہندو دشمن اور مسلم دوست تھیں۔ اس طرح مسلمانوں کے خلاف ہندووں میں نفرت کا زہر گھولا گیا اور اب اس کا ہلاکت خیز اثر دکھائی دے رہا ہے۔ آج اگرچہ یہ بات کہنے والے لوگ موجود ہیں کہ ہندوستان کو ایک سیکولر ملک ہی رہنا چاہیے، اسے ہندو راشٹر نہیں بننا چاہیے لیکن اب ایسے لوگوں کی تعداد کم ہوتی جا رہی ہے۔ مسلم دشمنی اور مسلم منافرت کے جو انجکشن لگائے گئے ان کے اثرات تعلیم یافتہ ہندووں میں بھی نظر آرہے ہیں اور جو لوگ مسلم دشمنی کے جذبات کو اپنے اندر دبائے ہوئے تھے وہ اب کھل کر باہر آگئے ہیں۔

یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ اتر پردیش ملک کی سب سے بڑی ریاست ہے اور قومی سیاست میں اس کی بڑی اہمیت ہے۔ جس نے یوپی جیت لیا اس نے دہلی جیت لی۔ اسی لیے جب 2017 کے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کی کامیابی ہوئی تو چاہے کیشو پرساد موریہ ہوں یا منوج سنہا، ان کے ناموں پر غور کرنے کے بعد انھیں مسترد کر دیا گیا اور ایک بھگوا دھاری اور کھل کر مسلمانوں کے خلاف بیان دینے والے ایک ایسے لیڈر کو وزیر اعلیٰ بنایا گیا جو نہ صرف اپنے خیالات سے بلکہ اپنے لباس اور اپنے ہاؤ بھاؤ سے بھی ہندووں کا نمائندہ محسوس ہوتا ہے۔ لہٰذا جب یوگی آدتیہ ناتھ کو وزیر اعلیٰ کے منصب پر بٹھایا گیا تو اس کا یہ مقصد تھا کہ عوام کو یہ بتایا جا سکے کہ ہندوستان ایک ہندو ملک بن چکا ہے۔


2022 کے اسمبلی انتخابات کے دوران اگرچہ بے روزگاری، مہنگائی، ناقص صحت نظام، آوارہ مویشیوں اور دوسرے عوامی مسائل کو اٹھایا گیا اور ایسا لگ رہا تھا کہ یہ مسائل بی جے پی کے لیے چیلنج ثابت ہوں گے اور اس کی کامیابی کو ناممکن بنا دیں گے۔ ملک کے بیشتر تجزیہ کار، صحافی اور مبصر یہی قیاس آرائی کر رہے تھے کہ اس بار بی جے پی کی شکست لازمی ہے۔ لیکن اس حکومت نے اندر ہی اندر مذہبی منافرت کا جو زہر بویا ہے اس نے بالآخر اپنا اثر دکھایا اور ان لوگوں نے بھی جو حکومت کو بے حد برا بھلا کہہ رہے تھے، جب پولنگ بوتھ پر پہنچے تو اپنا ارادہ بدل لیا یا یوں کہیں کہ ہندوتوا کے ایجنڈے نے ان کو بھی اپنے مایا جال میں گرفتار کر لیا اور انھوں نے بھی کمل کا بٹن دبا کر یہ بتا دیا کہ ان کے نزدیک بھی عوامی مسائل کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ اہمیت اس کی ہے کہ ہندوستان میں ہندووں کا بول بالا ہونا چاہیے۔

بہت سے مبصرین کا خیال ہے کہ نریندر مودی نے آر ایس ایس کی مدد سے اس ملک کی سیاست بدل کر رکھ دی ہے۔ اب یہاں کی سیاست میں ایک خاص مذہب کو بے انتہا اہمیت حاصل ہو گئی ہے۔ اکثریت پسندی کو حکومتی نظام میں ایک اہم مقام حاصل ہو گیا ہے۔ کیا اس طرز سیاست و حکومت کو جلد اور آسانی سے بدلا جا سکے گا؟

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 13 Mar 2022, 10:11 PM