کرناٹک میں ریڈی برادران نے بگاڑا بی جے پی کا حساب کتاب!

ریڈی برادران کی نئی پارٹی الیکشن لڑے گی اور اس کے امیدوار ووٹ کاٹ کر بی جے پی کے لیے مشکلات پیدا کریں گے۔

<div class="paragraphs"><p>ریڈی برادران / سوشل میڈیا</p></div>

ریڈی برادران / سوشل میڈیا

user

ناہید عطا اللہ

'بیلاری برادران' اور 'بیلاری بیرنز' کے نام سے مشہور ہیں اور ایک پولیس کانسٹیبل کے بیٹے ہیں۔ جناردھن ریڈی بڑے بھائی ہیں اور وہ کانکنی گھوٹالہ میں اہم ملزم ہیں، جس میں کرناٹک کو 16,000 کروڑ کا نقصان ہوا تھا۔ اگرچہ مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ اور بی جے پی نے باضابطہ طور پر جناردھن ریڈی سے خود کو دور کر لیا ہے لیکن دونوں بھائی قانون ساز بنے رہے۔ ان دونوں کے ساتھ گہرے تعلقات رکھنے والے اور ان کے 'دوست' سری رامولو، ریاستی حکومت میں ٹرانسپورٹ کے وزیر ہیں۔

جناردھن ریڈی نے جب گزشتہ ماہ ایک نئی سیاسی پارٹی کا اعلان کیا تو اس سے ریاستی سیاست میں ہلچل مچ گئی۔ کرناٹک پر بی جے پی کا سرکاری موقف یہ ہے کہ اس سال مئی میں ہونے والے اسمبلی انتخابات پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ بی جے پی اور ریڈی برادران میں تعلقات 1990 کی دہائی میں پیدا ہوئے اور یہ تعلقات 2009 تک خوشگوار رہے۔ ریڈی برادران نے آنجہانی سشما سوراج کو 1999 کے لوک سبھا کے انتخابات میں سونیا گاندھی کے خلاف لڑنے میں مدد کی تھی اور بی جے پی کو بیلاری، جو روایتی طور پر کانگریس کا گڑھ ہے، میں قدم جمانے میں مدد کی۔


جب 2008 میں بی جے پی ریاست میں برسراقتدار آئی تو ریڈی کو ان کے بھائی کروناکر ریڈی اور معاون سریرامولو کے ساتھ کابینہ میں شامل کیا گیا۔ 2009 میں انہوں نے بغاوت کی اور بی جے پی کے 60 ارکان اسمبلی کو ایک ریزورٹ میں لے گئے، اس وقت کے وزیر اعلیٰ یدی یورپا کو مجبور کیا کہ وہ اپنے ایک معتمد اور اب ایک مرکزی وزیر شوبھا کرندلاجے کو کابینہ سے ہٹا دیں۔ بی جے پی کے ساتھ تعلقات اس وقت خراب ہو گئے جب کرناٹک لوک آیکت نے جناردھن ریڈی پر کانکنی کے ایک بڑے گھوٹالے کا الزام لگایا، جس سے ریاست کو مبینہ طور پر 16000 کروڑ روپے سے زیادہ کا خسارہ برداشت کرنا پڑا۔ ریڈی کو 2011 میں گرفتار کیا گیا تھا اور 2015 میں ضمانت پر رہا کیا گیا۔

بیلاری میں جناردھن ریڈی کی بیوی ارونا لکشمی ان کی طرف سے نئی پارٹی کلیان راجیہ پرگتی پکشا (کے آر پی پی) چلا رہی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جناردھن ریڈی کو عدالتی حکم کی وجہ سے ابھی بھی بیلاری جانے کی اجازت نہیں ہے۔ سپریم کورٹ نے انہیں بیلاری ضلع، اننت پور اور کڈپہ جانے پر روک لگائی ہوئی ہے اور اگرچہ انہیں 2015 میں مشروط ضمانت دی گئی تھی لیکن ان مقامات پر جانے پر پابندی برقرار ہے۔ اکتوبر 2022 میں جناردھن ریڈی کی طرف سے شرائط میں ترمیم کرنے اور انہیں بیلاری ضلع میں 'داخل ہونے، رہنے اور کام کرنے' کی اجازت دینے کی اپیل کو عدالت نے مسترد کر دیا تھا۔


بنگلورو میں بی جے پی کے اندرونی ذرائع کا خیال ہے کہ نئی تنظیم کو شروع کرنے کا واحد ارادہ بی جے پی کے قومی جنرل سکریٹری (تنظیم) بی ایل سنتوش کو شرمندہ کرنا ہے۔ ریڈی برادران کا ماننا ہے کہ جناردھن ریڈی سے پارٹی کو دور کرنے میں سنتوش نے کلیدی کردار ادا کیا۔ دیگر ذرائع کا دعویٰ ہے کہ ریڈی نے کے آر پی پی کو شروع کرنے سے پہلے کافی کام کیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ گزشتہ الیکشن میں ہارنے والی تمام جماعتوں کے امیدواروں سے رابطے میں تھے۔ انہیں اس سال کے آر پی پی کے ممکنہ امیدوار قرار دیا جا رہا ہے۔ ہر نجومیوں سے مشورہ کرنے کے بعد ہر فیصلہ لینے والے ریڈی نے مبینہ طور پر ممکنہ امیدواروں سے کہا ہے کہ وہ اپنا زائچہ (جنم کنڈلی) جمع کرائیں۔

اگرچہ علاقائی پارٹیوں نے کرناٹک انتخابات میں تاریخی طور پر خراب کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے لیکن بی جے پی کے اندرونی ذرائع محتاط ہیں کیونکہ ان کا سامنا بی جے پی کے سابق لیڈر اور وزیر اعلیٰ بی ایس یدی یورپا کی 'کرناٹک جنتا پکشا' کی مثال موجود ہے جس نے 29 حلقوں میں بی جے پی کے امیدواروں کی شکست کو یقینی بنایا تھا۔


قابل ذکر بات یہ ہے کہ ریاست کی بی جے پی حکومت جناردھن ریڈی کے اثاثوں کو ضبط کرنے کی سی بی آئی کی درخواست کو قبول نہیں کر رہی۔ عدالت نے اس پر حکومت سے وضاحت بھی طلب کی ہے۔ اگست 2022 میں سینٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن (سی بی آئی) نے بھی ریڈی کی جائیدادوں کو ضبط کرنے کی اجازت طلب کرتے وقت یہ الزام لگایا تھا کہ ان لوگوں نے جائیداد کو غیر قانونی طور پر جمع کیا ہے۔ دریں اثنا، مرکزی ایجنسی نے آندھرا پردیش اور تلنگانہ میں 219 نئے اثاثہ جات کا پتہ لگانے کا دعوی کیا، جو مبینہ طور پر غیر قانونی فنڈز سے خریدے گئے تھے۔

مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے 224 رکنی اسمبلی میں 150 سیٹیں جیتنے کا ہدف رکھا تھا لیکن فی الحال بسواراج بومئی کی زیرقیادت ریاستی حکومت ایک کے بعد ایک بحران میں پھنسی ہوئی ہے چنانچہ یہ ایک مشکل ہدف نظر آتا ہے۔ وزیر اعلیٰ پارٹی کے سینئر لیڈروں کو منانے کی کوشش کر رہے ہیں جو ان کی کارکردگی سے ناخوش ہیں۔ وہ مخصوص ذاتوں کے لیے ریزرویشن کوٹہ بڑھا رہے ہیں اور انتخابات میں ان کی حمایت حاصل ہونے کی امید کر رہے ہیں۔


جولائی 2021 میں لنگایت لیڈر بی ایس یدی یورپا کی جگہ لینے والے بومئی ریاست میں آر ایس ایس لابی کو خوش کرنے کے فیصلے لینے میں مصروف ہیں۔ اخلاقی پولیسنگ، تبدیلی مذہب مخالف قوانین، مندروں کو سرکاری کنٹرول سے آزاد کرنے کی ان کی تجویز یہ سب کچھ ایک مخصوص طبقے کو خوش کرنے کے لیے تھا لیکن ٹھیکیداروں کے ساتھ بدعنوانی کے الزامات جس نے منصوبے کی کل لاگت کا 40 فیصد تک کمیشن کا مطالبہ کیا ہے وہ عوام کی یادداشت میں اٹکا ہوا ہے۔ بنگلورو میں ووٹروں کے ڈیٹا کی چوری اور ساحلی علاقے میں بلا روک ٹوک فرقہ وارانہ ہلاکتوں اور تشدد نے حکومت کی شبیہ کو داغدار کیا ہے۔

اگلے انتخابات میں ممکنہ نقصان کی تلافی کے لیے بی جے پی کی نظریں پرانے میسور کے علاقے پر ہے جہاں جنتا دل (سیکولر) اور کانگریس روایتی حریف ہیں اور برسوں سے جیت رہے ہیں۔ کولار سے چامراج نگر اضلاع تک اس خطے میں 90 سیٹیں ہیں۔ میسور، منڈیا، چامراج نگر، ہاسن اور بنگلورو دیہی کے علاقہ میں 40 سیٹیں ہیں۔ 2018 کے پچھلے انتخابات میں بی جے پی نے میسور، چامراج نگر اور ہاسن میں ایک ایک سیٹ جیتی تھی، جبکہ وہ منڈیا اور بنگلورو دیہی میں اپنا کھاتہ بھی نہیں کھول سکی تھی۔ اس کے بعد کے ضمنی انتخاب میں اسے منڈیا میں ایک سیٹ حاصل ہوئی۔


ریاست میں ایس سی کے لیے ریزرویشن 15 فیصد سے بڑھا کر 17 فیصد اور ایس ٹی کے لیے 3 سے بڑھا کر 7 فیصد کرنے کے فیصلے کے پیچھے بھی انتخابات ہیں۔ درج فہرست ذاتیں ریاست کی آبادی کا 16 فیصد اور درج فہرست قبائل 6.9 فیصد ہیں۔ بی جے پی رکن اسمبلی ہرش وردھن کا کہنا ہے کہ ’’امید ہے کہ مرکزی حکومت جلد ہی بڑھے ہوئے کوٹہ کو منظور کرے گی اور جب پارٹی اگلی حکومت بنائے گی تو ایس سی-ایس ٹی کو زیادہ نمائندگی دی جائے گی۔‘‘

بومئی حکومت نے دو مضبوط برادریوں - ووکالیگا اور لنگایت کے لیے موجودہ کوٹہ سسٹم میں دو نئے زمرے بنانے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔ ووکالیگا جے ڈی (ایس) کا ووٹ بینک رہا ہے، جبکہ لنگایت برادری شمالی کرناٹک کے 100 حلقوں پر غلبہ رکھتی ہے۔ اس سے پرجوش بی جے پی لیڈروں کا کہنا ہے کہ 2018 کے اسمبلی انتخابات میں پرانے میسور علاقے کی 52 سیٹوں پر بی جے پی امیدواروں کی ضمانت ضبط ہو گئی تھی لیکن اس کی وجہ یہ تھی کہ کمزور امیدواروں کو اس امید پر کھڑا کیا گیا تھا کہ جے ڈی ایس حکومت بنانے میں ان کی حمایت کریں گے۔ لیکن کوٹے سے امکانات بہتر ہوئے ہیں اور اس بار مضبوط امیدوار میدان میں اتریں گے۔ اس سب کے علاوہ بی جے پی امید کر رہی ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی اور مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ اپنی جارحانہ مہمات کی قیادت کر کے پارٹی کو دوبارہ اقتدار میں لانے میں مدد کریں گے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔