امریکہ میں ہندوستان کی خارجہ پالیسی کا سودا!

آئندہ سال امریکہ میں ہونے والے انتخاب میں اگر دوسری پارٹی کا صدر بن گیا تو اس کی نظر میں ہندوستان کی کیا حیثیت ہوگی اور ہمارے ملک کے ساتھ ان کے کیسے رشتے رہیں گے اس کا کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

نواب علی اختر

نواب علی اختر

ہر ملک کی اپنی خارجہ پالیسی ہوتی ہے جس کے تحت ہی غیر ممالک سے بات چیت، سرکاری دورے، سمجھوتے اور دیگر متعلقہ سرکاری امور انجام دیئے جاتے ہیں، لیکن شاید یہ پہلی بار ہے جب ہندوستان کا کوئی وزیر اعظم اپنی ہی خارجہ پالیسی کی ’خلاف ورزی‘ کرتے ہوئے دوسرے ملک میں جاکر وہاں کے سربراہ مملکت کو دوبارہ اقتدار سونپنے کے لئے ووٹ مانگتا نظر آیا ہو۔ نریندر مودی جو آج سے پہلے تک ہندوستان میں ’گنجے کو بھی کنگھا بیچنے والی‘ مارکیٹنگ میں ماہر مانے جاتے تھے، اب امریکہ میں اپنی اس مہارت کی پبلسٹی کرتے نظر آئے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ کسی ملک کے وزیر اعظم کی طرف سے دوسرے ملک میں جاکر وہاں کے لیڈر خاص کو ووٹ دینے کی اپیل کرنا، اس کے اپنے ہی ملک کی خارجہ پالیسی کی خلاف ورزی مانا جائے گا۔ مگر شاید مودی جی کو اس کی کوئی فکرنہیں ہے، وہ تاریخ رقم کرنے کی راہ پرسرپٹ دوڑ رہے ہیں خواہ اس سے ملک کا وقار کیوں نہ مجروح ہو جائے۔

امریکہ کے ہیوسٹن میں ہندوستان کے وزیراعظم نریندر مودی نے خواہ وہاں کے صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے حامیوں کی خوب تالیاں بٹوری ہوں مگر ملک کا ایک بڑا طبقہ مودی کے اس قدم کو ایک ’طاقتور ملک‘ کے سامنے دوسرے طاقتور ملک (ہندوستان)کی قدرو منزلت کم کرکے پیش کیے جانے سے مایوس نظر آرہا ہے۔ اتنا ضرور ہے کہ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ اور وزیر اعظم نریندر مودی کی ہوسٹن میں ہوئی ملاقات کو سیاسی دوستی کا حق پورا کرنے کے مترادف قرار د یا جاسکتا ہے اور ٹرمپ نے بھی اپنی تمام مصروفیات کو بالائے طاق رکھ کر اس سیاسی دوستی کا پورا حق ادا کیا اور کرنا بھی چاہیے کیونکہ انہیں اپنے اقتدار کی کرسی کھسکتی محسوس ہو رہی ہے اسی لئے وہ ایک بار پھرعہدہ صدارت حاصل کرنے کے لئے کچھ بھی کرنے کو تیار ہیں۔


صدر ٹرمپ نے ہوسٹن کے ’ہاوڈی مودی‘ پروگرام میں شرکت کر کے 2020 کے امریکی صدارتی انتخابات کے لئے ہند نژاد امریکیوں کے ووٹ مضبوط کرنے کی کوشش کی ہے۔ ’ہاوڈی مودی‘ پروگرام دراصل دونوں قائدین کے درمیان ہونے والا بڑا آپسی سمجھوتہ ہے جس کے لئے منظم طریقہ سے تیاری کی گئی تھی۔ این آر جی فٹبال اسٹیڈیم میں مبینہ طور پر 50 ہزار ہند نژاد امریکیوں کو جمع کرنے کے لئے ہفتوں نہیں بلکہ مہینوں پہلے تیاری کرتے ہوئے ایک غیر ملکی سر زمین پر مودی کی مقبولیت کا مظاہرہ کیا گیا۔ بلاشبہ یہ پروگرام مودی اور ٹرمپ دونوں کے سیاسی مستقبل کو مضبوط بنانے کے لئے منعقد کیا گیا تھا۔ اس سے پہلے بھی نیو یارک کے میڈیسن اسکوائر گارڈن پر مودی کے لئے جلسہ منعقد کیا گیا تھا۔ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ اس طرح کے شاندار جلسے بین الاقوامی ڈپلومیسی، گھریلو سیاست اور سیاسی تفریح کا حصہ ہوتے ہیں۔

ایک طرف وزیراعظم مودی کو اپنے ملک میں جاری معاشی سست روی کی بدنامی سے بچانے کے لئے امریکہ کی سرزمین کا سہارا لیا گیا۔ وہیں دوسری طرف امریکی صدر ٹرمپ کو دوسری میعاد کے لئے منتخب کروانے کے لئے صدارتی انتخاب کی مہم کا عملاً آغاز کیا گیا ہے۔ ہند نژاد امریکیوں میں ٹرمپ کی مقبولیت کا ثبوت دینے کے لئے بھی ہاوڈی مودی پروگرام کو ایک اہم ذریعہ بنایا گیا۔ وزیراعظم مودی اس جلسہ کے ذریعہ ٹرمپ کو یہ یقین دلانا چاہتے تھے کہ ہند نژاد امریکیوں کے ووٹ ان کے ہی حق میں ہوں گے اوراسی لئے مودی اپنی تقریر میں بھی کہتے نظر آئے کہ ’اب کی بار پھر ٹرمپ سرکار‘۔ یہ پروگرام واقعی اس بات کا ثبوت دے چکا ہے کہ ٹرمپ کے لئے آئندہ انتخابی کامیابی کو یقینی بنانے کوشش کی جائے گی۔ ہند نژاد امریکیوں کے ووٹ ٹرمپ کی دوسری میعاد کے لئے کام آئیں گے۔


مگر نریندر مودی نے کیا یہ بھی سوچا ہے کہ ان کے اس قدم سے ہندوستان جیسے عظیم ملک کی ساکھ پر کیا اثر پڑے گا، ملک کی خارجہ پالیسی کو دوسرے ممالک کے لوگ کس رخ سے دیکھیں گے؟ یہ کہناغلط نہیں ہوگا کہ ہندوستان کے کروڑوں لوگوں نے جس نریندر مودی کے سرپر وزارت عظمیٰ کا تاج سجایا تھا، اسی نریندر مودی نے غیر ملک میں جاکر ایک فرد خاص کی تشہیر کرکے اپنی خارجہ پالیسی کی دھجیاں اڑادیں۔ 70سال کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا ہوگا کہ ملک کا وزیراعظم دوسرے ملک جاکر کسی خاص امیدوار کا، اس کی پارٹی کے لئے کھل کر انتخابی مہم چلائے۔ اس پر اپوزیشن پارٹیوں نے سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہندوستان ہمیشہ غیر جانبدار رہا ہے، ملک کی خارجہ پالیسی کا تعین پنڈت نہرو نے، اندرا گاندھی نے کیا تھا، اس لئے اس کی دھجیاں اڑانے کاحق کسی کونہیں ہونا چاہیے۔

دنیا بھر میں اس پروگرام پربحث ہو رہی ہے، لوگ تنقید کر رہے ہیں کہ ہندوستان کے وزیراعظم غیر ملک میں جاکر وہاں ’اسٹارکمپینر‘ کی طرح ایک خاص سیاسی پارٹی اوراس کے لیڈر کا پرچار کیا ہے۔ اس کے کیا معنی ہیں؟ یہ بھی دھیان دینے والی بات ہے کہ اگر آئندہ سال امریکہ میں ہونے والے انتخاب میں دوسری پارٹی کا امیدوار صدر بن گیا تواس کی نظرمیں ہندوستان کی کیا حیثیت ہوگی، اس کے رشتے ہمارے ملک کے ساتھ کیسے رہیں گے اور نریندر مودی اس سے کیسے آنکھ ملا پائیں گے، اس کا کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا ہے۔ ذاتی دوستی اپنی جگہ ہوتی ہے۔ مودی اورٹرمپ خاندان تاعمر اپنی دوستی نبھائیں، اس پرکسی کو اعتراض نہیں ہونا چاہیے مگر ملک کی نمائندگی کرنے والے وزیراعظم نے اس طرح سے وہاں جو’انتخابی مہم‘ چلانے کا کام کیا ہے اسے کوئی بھی محب وطن مناسب نہیں ٹھہرا سکتا۔


امریکہ اور ہندوستان کے دیرینہ تعلقات رہے ہیں لیکن اب مودی اور ٹرمپ کے ذاتی سیاسی مفادات نے دونوں ملکوں کے دیرینہ روابط اور دوستانہ تعلقات کو ایک نیا رخ دے دیا ہے۔ امریکہ میں غیر مقیم ہندوستانیوں کا سیاسی وزن بھی بڑھ رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ امریکہ میں انتخابی اعتبار سے ہندوستانیوں کے اثر کو پہلے سے زیادہ نوٹ کیا گیا ہے۔ امریکہ میں ٹرمپ کی ریپبلکن پارٹی کو’انتہا پسند‘ سیاست کا چہرا مانا جاتا ہے جبکہ اپوزیشن ڈیمو کریٹک پارٹی کا رجحان سیکولر بتایا جاتا ہے اور ہند نژاد امریکیوں کی اکثریت کا جھکاؤ بھی زیادہ تر ڈیموکریٹس کی طرف دیکھا گیا ہے لیکن مودی۔ ٹرمپ کی ’سیاسی دوستی‘ نے اس جھکاؤ کا رخ ری پبلکن پارٹی کی طرف خاص کر ٹرمپ کی جانب کرنے کی کوشش کی ہے اور ہاوڈی مودی پروگرام بھی اس سیاسی کوشش کا حصہ ہے۔

امریکہ میں تقریباً 3 ملین غیر مقیم ہندوستانی آبادی ہیں جو امریکہ کے لئے تیسری بڑی طاقت سمجھی جاتی ہے۔ کل تک یہ غیرمقیم ہندوستانی کانگریس کے طرفدار تھے، اب بی جے پی یا سنگھ پریوار ان غیرمقیم ہندوستانیوں کا رخ بدلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کیا اس کے لئے نریندر مودی کا انتخاب کیا گیا ہے جنہیں ہندوستان میں اپوزیشن ’مارکیٹنگ میں ماہر‘ بتاتا ہے۔ اگر ایسا ہے تو شاید ٹرمپ کو اپنے فیصلے پر نظرثانی کرنا پڑے گی کیونکہ عام لوگ اب سمجھ چکے ہیں کہ ان کی بھلائی کس میں ہے اور اسی لئے انہوں نے انتہا پسند سیاست کو ٹھکانے لگانے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ اس کی شروعات اسرائیل سے کی گئی جہاں فلسطینیوں کے’خون‘ پر سیاست کرکے کئی سالوں تک یہودیوں پر راج کرنے والے بنجامن نیتن یاہو ہر طرح کے ہتھکنڈے اپنانے کے باوجود اقتدارسے تقریباً باہر ہوگئے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔