امت شاہ جی! رخ بدل رہا ہے، اب ’لہر‘ کا دور ختم

کرناٹک میں کانگریس نے امت شاہ اور نریندر مودی کو شکست فاش دے کر یہ ظاہر بھی کر دیا ہے کہ انتخابی حکمت عملی آخر ہوتی کیا ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

سید خرم رضا

کسی ’لہر‘ میں کامیابی حاصل کرنا اور نازک موقعوں پر اپنی نیّا پار لگانا، دونوں میں بہت فرق ہوتا ہے۔ بی جے پی کے مداحوں کا یہ دعوی کرنا اور اس کی تشہیر کرنا کہ انتخابی حکمت عملی کا امت شاہ سے بڑا کوئی ماہر نہیں ہے، اس دعوے کی ویسے تو کئی مرتبہ قلعی کھل چکی ہے لیکن یدو رپا کے استعفے کے بعد اس کی قلعی ایک مرتبہ پھر کھل گئی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جب جب ان کے مخالف نے فرنٹ فٹ پر بلے بازی کی ہے تب تب بی جے پی صدر امت شا ہ کہیں نظر نہیں آئے اور ان کی حکمت عملی کی زبردست شکست ہوئی ہے۔ چاہے وہ دہلی اسمبلی کے انتخابات ہوں ، بہار اسمبلی کے انتخابات ہوں ، گجرات راجیہ سبھا کا چناؤ ہو یا پھر ملک میں کئی مقامات پر ہونے والے ضمنی انتخابات ہوں، ہرجگہ ان کی حکمت عملی کہیں دکھائی نہیں دی۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ایک اور نازک موقع پر امت شاہ پوری طرح ناکام رہے لیکن اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ کرناٹک میں ان کی اس ناکامی کے لئے وہ خود کتنے ذمہ دار ہیں اور کانگریس و جے ڈی ایس کے رہنما اور ان کی حکمت عملی کتنی ذمہ دار ہے۔ دراصل گجرات میں راجیہ سبھا کے لئے جس طرح احمد پٹیل کے انتخاب میں کانگریس نے اپنی حکمت عملی اور طاقت کا مظاہرہ کیا تھا اور امت شاہ کو بتا دیا تھا کہ حکمت عملی کیا ہوتی ہے، کچھ اسی طرح کرناٹک میں بھی کانگریس نے امت شاہ اور نریندر مودی کو پیغام دے دیا ہے کہ انتخابی حکمت عملی آخر ہے کیا۔ اپنی حکمت عملی کے تحت کانگریس نے اپنا پہلا پتہ ایگزٹ پول کے رجحانات سامنے آنے کے بعد اس وقت کھیلا جب کرناٹک کے سابق وزیر اعلی سدارمیا نے اعلان کیا کہ وہ کسی بھی دلت امیدوار کے لئے اپنی وزیر اعلی کی دعوے داری سے دست بردار ہو سکتے ہیں ۔یہ کانگریس کی جانب سے اپنے اور سدا رمیا کے مخالفین کے لئے پہلا پیغام تھا کہ وہ بی جے پی کو روکنے کے لئے ہر ممکن سمجھوتہ کر سکتے ہیں ۔ دوسرا پتہ انتخابی نتائج آنے کے فورا ًبعد یہ کھیلا کہ برق رفتاری کے ساتھ کانگریس حرکت میں آئی اور جے ڈی ایس کی حمایت کا اعلان کیا ۔ اس نے اس پتہ سے بی جے پی کے خیمے سے سب سے زیادہ سیٹیں جیتنے کے جشن کی ہوا نکال دی ۔ تیسرا پتہ اس وقت چلا جب گورنر وجو بھائی والا نے سب سے زیادہ سیٹ حاصل کرنے کی بنیاد پر یدو رپا کو حلف کے لئے بلا لیا اور اس کے اوقات ایسے طے کئے جس سے عدالت سے رجوع کرنے میں دشواری ہو لیکن کانگریس نے عدالت کو اسی رات ان کی عرضی سننے کے لئے مجبور کیا۔ چوتھا پتہ اس وقت چلا جب اس نے اپنے اور جے ڈی ایس کے منتخب ارکان کو پہلے بنگلورو کے ریسورٹ اور پھر حید رآباد میں ایسے محفوظ مقام پر رکھا جہاں بی جے پی کی رسائی ممکن نہ ہو سکے ۔ کانگریس نے پانچواں پتہ اس وقت کھیلا جب گورنر نے کم عمر کے اور داغدار رکن اسمبلی کو پروٹیم اسپیکر بنا یا تو ا س نے فوراً عدالت سے رجوع کیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ عدالت نے شفافیت کو یقینی بنانے کے لئے ٹیلی کاسٹ کرانے کا فیصلہ دے دیا ۔ اس درمیان کانگریس اسٹنگ کی بامبنگ بھی کرتی رہی ۔ اس سب میں انتخابی سیاست کی حکمت عملی کے ماہر امت شاہ کہیں نظر نہیں آئے ۔ اس سارے کھیل میں جہاں کانگریس کے سینئر رہنما پوری طرح متحرک رہے وہیں کرناٹک کے سابق وزیر اور امیر رکن اسمبلی ڈ ی کے شیو کما ر کا کردار انتہائی اہم رہا۔

امت شاہ کو انتخابی حکمت عملی کے ماہر کا خطاب دینے والے سمجھ لیں کہ امت شاہ ابھی تک بدلاؤ اور جملوں کی لہر میں کامیاب ہوتے رہے ہیں لیکن جہاں پر بھی سامنے سے سنجیدگی کے ساتھ سیدھا مقابلہ ہوا تو ان کی حکمت عملی کا شیرازہ بکھر گیا ۔ اس لئے امت شاہ اور ان کے مداحوں کو سمجھ لینا چاہئے کہ اب بی جے پی کو کسی حکومت سے جواب نہیں لینا بلکہ ان کو اب ملک کے عوام کو جواب دینا ہے۔ امت شاہ جی !اب ہوا کا رخ بدل رہا ہے اور’ لہر‘ کا وقت گزر گیا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 20 May 2018, 4:02 AM