پاکستان میں مذہبی ووٹوں کو جیتنے کی دوڑ

حالیہ دنوں میں دو مرکزی سیاسی جماعتوں کے چوٹی کے رہنماؤں نے مذہبی انتہا پسندوں کی حمایت حاصل کر کے ووٹ جیتنے کے جنون کا مظاہرہ کیا ہے۔ ولسن سینٹر کے ڈپٹی ڈائریکٹر مائیکل کوگل مین کا تبصرہ۔

تصویر ڈی ڈبلیو ڈی
تصویر ڈی ڈبلیو ڈی
user

ڈی. ڈبلیو

حال ہی میں کالعدم فرقہ پرست تنظیم، اہل سنت والجماعت نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ اسی طرح امریکا کی جانب سے دہشت گرد قرار دیے گئے گروہ حرکت المجاہدین کے بانی فضل الرحمان خلیل نے پاکستان تحریک انصاف کے صف اول کے رہنما اسد عمر کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ اسد عمر کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ پی ٹی آئی کی ممکنہ حکومت کے وزیر مالیات ہوں گے۔

شاہد خاقان عباسی یا اسد عمر، دونوں میں سے کسی نے اس حمایت کو مسترد نہیں کیا۔ اسد عمر نے ایک ویڈیو جاری کی جس میں مولانا خلیل کی تعریفوں کے پل باندھے گئے۔ یعنی پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ن) سخت انتخابی معرکے میں ہر طرح کی مدد حاصل کرنے پر تیار ہیں، چاہے وہ مدد کتنی بھی متنازعہ یا نقصان دہ کیوں نہ ہو؟

یہ پہلی مرتبہ نہیں کہ پاکستان کے سیاست دانوں نے انتہا پسندوں سے اتحاد کیا ہو اور نہ ہی یہ صرف پاکستان مسلم لیگ یا پاکستان تحریک انصاف تک محدود ہے۔

اہل سنت والجماعت کے سربراہ محمد احمد لدھیانوی پہلے بھی پاکستان مسلم لیگ (ن) کے لیڈر رانا ثنا اللہ کے ساتھ اُن کی الیکشن ریلی کے دوران ایک ہی اسٹیج پر بیٹھے ہوئے تھے۔ لیکن اسی جماعت نے 2008ء کے الیکشن میں پاکستان پیپلز پارٹی کے 25 امیدواروں کی حمایت بھی کی تھی۔ پیپلز پارٹی کو پاکستان کی لبرل اور سیکولر جماعتوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔

دوسری جانب یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان دنیا کا واحد ملک نہیں جہاں انتہا پسند قوتیں سیاسی جماعتوں سے اتحاد بناتی ہیں۔ امریکا میں معروف انتہا پسند تنظیم ، کلو کلکس کلان اور دیگرنسل پرست گروہ ریپلکن پارٹی کے ساتھ اتحاد بناتے ہیں۔

تاہم پاکستان کی موجودہ صورت حال اس وجہ سے مختلف ہے کہ مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی دونوں مذہبی جماعتوں کے خلاف بھی الیکشن لڑ رہی ہیں جن میں تحریک لبیک پاکستان (جوتوہین رسالت کرنے والوں کو پھانسی دینے کا مطالبہ کرتی ہے) اور اللہ اکبر تحریک ہے جو لشکر طیبہ کی اتحادی ہے۔ ان مذہبی جماعتوں کے گڑھ بھی پنجاب ہی میں ہیں۔

پاکستان کے انتخابی منظر نامے میں مذہبی انتہا پسند عناصر کی اتنی بڑی تعداد کے موجود ہونے کی وجہ سے بڑی سیاسی جماعتیں ان سے انتخابی اتحاد بنانے میں فائدہ دیکھتی ہیں لیکن اس طرح وہ اپنے بیانیہ اور انتخابی نعروں میں انکے نظریات کو جگہ بھی دیتی ہیں۔

مثال کے طور پر حال ہی میں عمران خان نے توہین رسالت قوانین کی مکمل حمایت کا اعلان کیا۔ پاکستان میں عمومی طور پر اس نعرے کو حمایت حاصل ہے۔ انتہا پسند مذہبی جماعتیں اسی طرح کے نعروں کے ساتھ میدان میں اتری ہیں۔

پاکستان مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی دونوں اس قدر کانٹے دار مقابلے میں مذہبی ووٹ ضائع کرنے کے متحمل نہیں ہو سکتیں۔ اس لیے وہ مذہبی جماعتوں کے ووٹروں کواپنی جانب مائل کرنے کے جتن کر رہی ہیں۔

ان سب کے سنگین اثرات مرتب ہوں گے۔ انتہا پسندوں سے انتخابی اتحاد بنا کر، مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی دونوں انتہا پسندانہ خیالات اور زہریلی سوچ کو مرکزی سیاسی دھارے اور وسیع ترمعاشرے میں فروغ دینے کا موجب بن رہی ہیں۔ ایک ایسی قوم میں جہاں پہلے ہی انتہا پسند نظریات کی طرف رجحان پایا جاتا ہے اس نوعیت کی سیاسی توڑ جوڑ خطرات اور نقصاندہ ثابت ہوگی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔