پاکستان: آسیہ بی بی توہین رسالت معاملہ میں دوسال بعد آج سے سماعت شروع

اسلام آباد: توہین مذہب کے معاملہ میں دو سال کے بعدپاکستان کی عدالت عظمیٰ کے سربراہ چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی خصوصی بنچ مسیحی خاتون آسیہ بی بی کے مقدمے کی دوبارہ سماعت آج سے کر رہا ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

یو این آئی

اسلام آباد: توہین مذہب کے معاملہ میں دو سال کے بعدپاکستان کی عدالت عظمیٰ کے سربراہ چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی خصوصی بنچ مسیحی خاتون آسیہ بی بی کے مقدمے کی دوبارہ سماعت آج سے کر رہا ہے۔

آسیہ بی بی کے خلاف جون 2009 میں توہین رسالت کے الزام میں درج مقدمے میں الزام لگایا گیا تھا کہ انھوں نے اپنے ہمراہ کھیتوں میں کام کرنے والی خواتین کے ساتھ بحث کے دوران پیغمبر اسلام کے خلاف توہین آمیز کلمات کہے تھے اور اگلے برس 2010 میں انھیں اس مقدمے میں موت کی سزا سنائی گئی تھی۔

اکتوبر 2016 میں مجرمہ آسیہ بی بی کی سزائے موت کے خلاف نظرثانی کی درخواست سپریم کورٹ میں آخری دفعہ سنی گئی تھی لیکن اس تین رکنی بنچ کے ممبر جج اقبال حمید الرحمن نے کہا کہ کیونکہ وہ ماضی میں سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے قتل کے مقدمے کی سماعت کر چکے ہیں اور آسیہ بی بی کا مقدمہ بھی اسی سے منسلک ہے اس لیے وہ اس کی سماعت نہیں کر سکتے۔

اگلے سال ٹرائل کورٹ نے آسیہ بی بی کو سزائے موت سنائی تھی جس کے خلاف انھوں نے لاہور ہائی کورٹ میں اپیل داخل کی تھی۔ چار سال بعد اکتوبر 2014 میں عدالت نے سزا کی توثیق کی تھی لیکن آسیہ بی بی نے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلہ کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی تھی جس میں موت کی سزا کو چیلنج کرتے ہوئے اسے کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی تھی۔

7 گواہان کے بیانات کی روشنی میں آسیہ بی بی پر توہین رسالت کا الزامات لگائے گئے ہیں۔ ان میں سے دو مرکزی گواہان وہ دو عورتیں ہیں جو آسیہ بی بی کے ساتھ کھیتوں میں کام کر رہی تھی۔

ان دونوں خواتین نے آسیہ بی بی کی جانب سے ادا کیے گئے مبینہ توہین آمیز کلمات کے بارے میں مقامی شخص قاری محمد سلام کو اطلاع دی جس نے پولیس میں رپورٹ کرائی۔

پولس کے تین کانسٹیبل جنھوں نے اس کیس کی تفتیش کی اور ایک اور مقامی شخص جس نے دعویٰ کیا تھا کہ آسیہ بی بی نے عوامی طور پر اپنے خلاف لگائے جانے والے الزامات کی تصدیق کی ہے۔

اپنے بیان میں آسیہ بی بی کا کہنا تھا کہ ان کا اپنے ساتھ کام کرنے والی خواتین کے ساتھ پینے کے پانی کے گلاس کے حوالے سے جھگڑا ہوا تھا جب ان دونوں نے مبینہ طور پر اس لیے پانی پینے سے انکار کیا کہ آسیہ بی بی مسیحی ہیں اور اس کے بعد سخت الفاظ کا تبادلہ ہوا تھا۔

آسیہ بی بی نے الزام لگایا کہ دونوں خواتین نے جھوٹی کہانی گھڑی ہے اور قاری سلام کو شامل کیا جس کی بیوی نے ان دونوں کو قرآن کی تعلیم دیتی تھی۔

انھوں نے مزید کہا کہ وہ پیغمبر اسلام کی بہت عزت کرتی ہیں اور انھوں نے کوئی بھی توہین آمیز کلمات نہیں ادا کیے۔

واضح رہے کہ آسیہ بی بی پاکستان میں یہ سزا پانے والی پہلی غیر مسلم خاتون ہیں۔ وکلا کے مطابق یہ پہلا موقع ہے جب سپریم کورٹ نے تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 295 سی کے تحت کسی مقدمے کی سماعت کی ہو۔

آسیہ بی بی کے اس مقدمے پر پوری دنیا کے ذرائع ابلاغ کی نظریں مرکوز ہیں۔

پاکستان میں توہین مذہب کا قانون ایک حساس معاملہ ہے۔ ماضی میں پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر اور اقلیتوں کے وزیر شہباز بھٹی کو اس قانون میں ترمیم اور آسیہ بی بی کے حق میں آواز اٹھانے پر قتل کیا جاچکا ہے۔ سلمان تاثیر نے آسیہ بی بی کو سزائے موت کی سزا سنائے جانے کے بعد ان سے ملاقات بھی کی تھی۔ اس ملاقات کے بعد سلمان تاثیر نے آسیہ بی بی کو بے گناہ قرار دیا تھا اور تجویز دی تھی کہ توہین رسالت کے قانون پر نظر ثانی کی جائے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔