پاکستان میں جمہوریت کی بقا کی جنگ، نواز شریف علمبردار .. ظفر آغا

پاکستانی سیاست میں یہ ایک اہم اور تاریخی موڑ ہے جس کے علمبردار میاں نواز شریف ہیں، جو اس وقت جمہوریت کی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

ظفر آغا

پاکستان ایک بار پھر سیاسی خلفشار کا شکار ہے۔ نواز شریف اور ان کی بیٹی قید میں ہیں۔ پورے ملک پر ملٹری کا سایہ چھایا ہوا ہے۔ شہر لاہور ایک جیل بن چکا ہے۔ کرفیو لگا ہوا ہے، پبلک ریلیوں پر پابندی ہے اور انٹرنیٹ بھی بند ہے... الغرض ملک ایک ہنگامے سے گزر رہا ہے۔ اب نواز شریف، ان کا خاندان اور ان کی سیاسی جماعت پاکستان مسلم لیگ (نواز) پر قہر نازل ہے۔ حیرت ناک بات تو یہ ہے کہ یہ سب کچھ ملک میں 26 جولائی کو ہونے والے پارلیمانی انتخابات کے ہنگاموں کے درمیان ہو رہا ہے۔بھلا ان حالات میں ہونے والے انتخابات کے اب کچھ معنی بچے ہیں! ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت اور اس کے لیڈران جب جیل میں ہوں گے تو پاکستان میں جمہوریت کے کوئی معنی رہ جائیں گے کیا! ایک ایماندارانہ انتخابات کے درمیان انتخابی تشہیر اس کی شہ رگ ہوتی ہے اور تشہیر کے روح رواں سیاسی جماعتوں کی لیڈرشپ ہوتی ہے۔ جب پاکستان مسلم لیگ (ن) کی اعلیٰ قیادت جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہوگی تو ملک میں انتخابی تشہیر محض مذاق بن کر رہ جائے گی۔ ظاہر ہے کہ ان حالات میں نہ انتخابات انتخابات رہ جائیں گے اور نہ ہی جمہوریت کے کچھ معنی بچیں گے۔

لیکن یہ مت سمجھیے کہ نواز شریف کے جیل جانے سے پاکستان میں جمہوریت کا جنازہ نکل گیا۔ دراصل پاکستان میں جو کچھ اس وقت ہو رہا ہے وہ وہاں کی جمہوریت کی بقا کے لیے بہت اہم ہے اور پاکستان جمہوریت کی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے۔ کیونکہ میاں نواز شریف آج کے پاکستان کی جمہوری طاقتوں کے علمبردار بن چکے ہیں۔ اس وقت پاکستان پھر فوجی آمریت سے دست و پا ہے۔ پاکستان میں جو کچھ ہوتا ہے وہ فوج کی ایما پر ہوتا ہے۔ نواز شریف کو اس وقت جیل بھیجنے کی سازش فوج کی رَچی ہوئی ہے۔ میاں صاحب یوں تو سنہ 1980 کی دہائی میں فوج کے چہیتے تھے۔ اس وقت جنرل ضیاء الحق کی ایما پر بے نظیر بھٹو کو ختم کرنے کے لیے نواز شریف اور ان کی پارٹی کو فوج نے کھڑا کیا تھا۔ لیکن وہ کام جو نواز شریف نے اس وقت کیا تھا وہ کام اب عمران خان کر رہے ہیں۔ نواز شریف کو ختم کرنے کے لیے فوج نے اس بار عمران خان کو چنا ہے۔

جی ہاں، پاکستانی سیاست کی بساط وہ بساط ہے جس پر مہرے تو بدل جاتے ہیں لیکن بساط اور بازی ہمیشہ فوج کے ہاتھوں میں ہی ہوتی ہے۔ لیکن اب نواز شریف نے اس بساط پر ایک نئی چال چل دی ہے جس نے فوج کو پریشان کر دیا ہے۔ فوج نے حالیہ انتخابات میں عمران خان کو ملک کا وزیر اعظم بنانے کی چال چلی تھی۔ جیسے سنہ 2012 اور 2014 کے درمیان منموہن سنگھ حکومت کے خلاف کرپشن کے نام پر سَنگھ نے اَنّا موومنٹ کھڑا کیا تھا، بالکل ویسے ہی ’پناما پیپرس‘ کی آڑ میں فوج نے عمران خان کے ذریعہ میاں نواز شریف کے خلاف کرپشن کے نام پر ایک موومنٹ کھڑا کیا۔ پھر جیسے جیسے انتخابات قریب آتے گئے، ویسے ویسے فوج نے نواز شریف اور پاکستان مسلم لیگ (ن) پر شکنجے کسنا شروع کر دیا۔ جیسے ان دنوں ہندوستانی سپریم کورٹ مودی حکومت پر مہربان ہے، ویسے ہی پاکستان کی عدلیہ نے انتخابات کا اعلان ہوتے ہی نواز شریف کو جیل بھیجنے کی ٹھان لی۔ آخر میاں صاحب نے جلاوطنی اختیار کی اور ادھر فوجی مہرا عمران خان کو انتخابی میدان صاف مل گیا۔ بے نظیر کی موت کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی پہلے ہی ختم تھی، نواز شریف بھی جب جلاوطن ہو گئے تو بس عمران خان کے مزے آ گئے۔ ساتھ ہی جیسے 2014 میں ہندوستانی میڈیا نے مودی کے گن گان کر بی جے پی کو اقتدار تک پہنچایا تھا، ویسے ہی پاکستانی ٹی وی نے وہاں عمران خان کے قصیدے پڑھنا شروع کر دیے۔ اس طرح فوج نے یہ تصور کر لیا کہ انتخابی بساط پوری طرح اس کے ہاتھوں میں ہے اور ان کا مہرا عمران اب وزیر اعظم بن جائے گا۔

لیکن نواز شریف نے لندن سے پاکستان واپس لوٹ کر فوج اور اس کے پٹھووں کو مشکل میں ڈال دیا۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ میاں صاحب اس وقت محض ایک انتخابی لڑائی ہی نہیں لڑ رہے بلکہ وہ اب پاکستان میں جمہوریت کی بقا کی بھی جنگ لڑ رہے ہیں۔ لیکن ضیاء الحق اور فوج کے کبھی پٹھو رہے نواز شریف میں یہ تبدیلی کیسے آئی کہ وہ اب جمہوری طاقتوں کے علمبردار بن گئے۔ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب اس وقت سمجھنا ضروری ہے۔ کیونکہ تب ہی یہ سمجھ میں آئے گا کہ پاکستانی سیاست میں اس وقت ہو کیا رہا ہے۔

یوں تو پاکستانی سیاست پوری طرح فوج کے شکنجے میں ہے، لیکن پاکستان میں جمہوری طاقتیں ہمیشہ فوج سے لڑتی بھی رہی ہیں۔ یہ لڑائی سنہ 1970 کی دہائی سے لے کر بے نظیر کی موت تک بھٹو خاندان لڑ رہا تھا۔ لیکن اب اس لڑائی اور جدوجہد کے علمبردار نواز شریف بن گئے ہیں۔ دراصل پاکستان کی اس جنگ کی اب قیادت وہاں کا نیا سرمایہ دار طبقہ کر رہا ہے۔ سرمایہ دار ہمیشہ آمریت کے خلاف لڑتا ہے۔ نواز شریف خود ایک سرمایہ دار گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں۔ پاکستانی سیاست میں قدم رکھنے سے قبل وہ پاکستانی اسٹیل کنگ کے لقب سے مشہور تھے۔ لیکن پاکستان میں فوجی نظام سرمایہ دار طبقے کو ایک حد سے آگے نہیں بڑھنے دیتا ہے کیونکہ ہندوستان سے دوستی پاکستانی سرمایہ داروں کے مفاد میں ہے جب کہ فوج کی بقا ہندوستان کی مخالفت میں ہی ہے۔ مودی حکومت نے جب حلف لیا تو اس وجہ سے نواز شریف اس وقت ہندوستان آئے اور پھر انہوں نے چند گھنٹوں کے لیے ہی سہی لیکن مودی کو پاکستان بلا لیا۔ بس فوج کو نواز شریف سے خطرہ نظر آنے لگا اور اس نے سازش رَچ کر پہلے ان کو اقتدار سے باہر کیا، پھر ملک سے باہر اور اب جیل پہنچا دیا۔

لیکن اب پاکستانی سرمایہ دار طبقہ اور وہاں کی جمہوری طاقتیں فوج کے خلاف میدان میں اتر پڑی ہیں اور نواز شریف اس جنگ کے کمانڈر بن چکے ہیں۔ یہ جنگ لمبی چلے گی۔ فی الحال نواز شریف کو امید ہے کہ ان کو جیل بھیجے جانے کے بعد پاکستان میں ان کی پارٹی ’ہمدردی کی لہر‘ کے سہارے فوج کی سازش کو انتخابات میں ناکام بنا دے گی۔ یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ نواز شریف اس بازی میں کامیاب ہوتے ہیں کہ نہیں، لیکن یہ طے ہے کہ نواز شریف نے جیل جا کر فوج اور عمران خان دونوں کی سیاسی ساکھ بگاڑ دی ہے۔ انتخابی نتائج کیا گل کھلاتے ہیں، یہ تو اس مہینے کے آخر تک پتہ چل جائے گا۔ لیکن پاکستانی فوج اور وہاں کی جمہوری طاقتوں کے درمیان چھڑی جنگ کیا کروٹ لیتی ہے، یہ کہنا ابھی ذرا مشکل ہے۔ لیکن یہ طے ہے کہ پاکستان اب جمہوریت کی لڑائی لڑنے کو تیار ہے اور پاکستانی سیاست میں یہ ایک اہم اور تاریخی موڑ ہے جس کے علمبردار میاں نواز شریف ہیں، جو اس وقت محض اپنی پارٹی ہی نہیں بلکہ پاکستان میں جمہوریت کی بقا کی بھی جنگ لڑ رہے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 15 Jul 2018, 9:58 AM
/* */