سعودی شہزادی بسمہ بنت سعود کہاں ہیں؟

سعودی شاہی خاندان کی نڈر شہزادی بسمہ بنت سعود کو بیرون ملک علاج کے لیے جانے سے پہلے روک لیا گیا تھا اور وہ تب سے پراسرار طور پر غائب ہیں۔شہزادی کے قریبی ان کی مبینہ گرفتاری کے حوالے سے جواب چاہتے ہیں

سوشل میڈیا
سوشل میڈیا
user

ڈی. ڈبلیو

سعودی شاہی خاندان کی شہزادی بسمہ بنت سعود کے 'لا پتہ ہونے‘ کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ ڈی ڈبلیو کے ذرائع کے مطابق انہیں سعودی عرب کے شہر ریاض میں بغیر کسی الزام کے نظر بند کر دیا گیا ہے۔ شہزادی کے قریبی ذرائع نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ شہزادی بسمہ ایک نامعلوم مقام سے اپنے خاندان کے ساتھ رابطے میں تھیں لیکن وہ کھل کر بات چیت نہیں کر سکتی تھیں کیونکہ ان کی نگرانی کی جا رہی تھی۔

شہزادی بسمہ طویل عرصے سے سعودی عرب سمیت پورے عرب خطے میں آئینی اصلاحات اور انسانی حقوق کے لیے آواز بلند کر رہی ہیں۔ ان کی بیٹی سمیت نظر بندی نے سعودی خاندان میں غم و غصہ پیدا کیا ہے کیونکہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کو اس سے پہلے بھی اپنے ناقدین کو دھمکانے، جیل بھیجنے اور لا پتہ کرنے کے حوالے سے الزامات کا سامنا رہا ہے۔


ذرائع نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ شہزادی بسمہ کو رواں سال مارچ میں اس وقت حراست میں لیا گیا تھا، جب وہ علاج کی غرض سے سوئٹزر لینڈ جانے والی تھیں۔ انہیں سکیورٹی اداروں نے اپنی بیٹی کے ہمراہ ملک سے فرار ہونے کے شک میں حراست میں لیا ہے۔ ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس کے بعد سے سعودی حکام نے شہزادی کی بازیابی کے لیے دی گئی درخواستوں کا کوئی جواب نہیں دیا۔

ڈی ڈبلیو نے جو دستاویزات دیکھی ہیں، ان کے مطابق شہزادی بسمہ کو گزشتہ سال اٹھارہ دسمبر کو ان کے سوئس ڈاکٹر کی ہدایت پر فوری علاج کی غرض سے اپنی بیٹی کے ہمراہ جدہ سے پرواز کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔ امریکا میں مقیم وکیل لیونارڈ بینیٹ، جنہوں نے ان کے سعودی عرب سے انخلا کا بندوبست کیا تھا، نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''شہزادی کے جہاز کو اُڑنے نہیں دیا گیا اور ان کو وہاں سے باہر جانے کی اجازت نہیں تھی۔ اس واقعے کے دو ماہ بعد شہزادی غائب ہو گئیں اور ان کا اب تک کچھ اتا پتا نہیں ہے۔ شہزادی کے حوالے سے ہمیں بدترین خدشات لاحق ہیں۔ مسلسل فون کالز کرنے کی کوششوں کے بعد ان سے ایک مرتبہ رابطہ ہوا لیکن وہ ایک یرغمالی کی طرح بات کر رہی تھیں۔‘‘


شہزادی بسمہ کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ حکام نے ان کے فرار ہونے کے شبہات کی تحقیقات کیں، جو کہ غلط ثابت ہوئیں لیکن یہ واضح نہیں کہ اب تک ان کو حراست میں کیوں رکھا گیا ہے؟ ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ انہیں نہیں معلوم کہ بسمہ کی گرفتاری کا حکم کس نے دیا؟

شہزادی کی ایک دوست اور کاروباری ساتھی نے نام ظاہر نہ کرنے کی یقین دہانی کے بعد اس بات کی تصدیق کی کہ شہزادی مارچ سے لاپتہ ہے لیکن حکمران خاندان کو معلوم ہونا چاہیے کہ وہ کہاں پر ہے؟ ایک دوسری شخصیت کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ یہ بات تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں کہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کو اس بات کا علم نہیں ہے، '' ہم جاننا چاہتے ہیں کہ شہزادی کہاں اور کس حال میں ہے؟‘‘


فروری کے اواخر سے شہزادی بسمہ کا ٹویٹر اکاؤنٹ بھی خاموش ہے۔ شہزادی بسمہ نے 2006ء میں سعودی عرب کے نشریاتی اداروں کے لیے لکھنے کا آغاز کیا تھا۔ اس کے بعد وہ ایک کاروباری خاتون کے ساتھ ساتھ اصلاحات پسند اور انسانی حقوق کے لیے ایک بڑی آواز بن کر اُبھریں۔ سن دو ہزار گیارہ میں وہ اپنی شادی ختم ہو جانے کے بعد لندن چلی گئی تھیں، جہاں وہ مختلف بین الاقوامی فورمز پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور خطے میں دولت کی عدم مساوات جیسے مسائل کو اجاگر کرتی نظر آئیں۔ انہوں نے خواتین کے حقوق اور آئینی اصلاحات کو فروغ دینے کے لیے بھی کام کیا۔

شہزادی بسمہ نے 2012ء میں بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے بتایا تھا کہ وہ اس بات پر غمزدہ ہیں کہ سعودی عرب نے آئینی اصلاحات کے ان منصوبوں پر عمل درآمد نہیں کیا، جن سے بادشاہ کا منصب اور وزارت عظمیٰ کو الگ کیا جانا تھا۔ وہ 2015ء کے بعد سعودی عرب واپس آگئیں اور لندن کی اپنی کچھ کمپنیاں بھی بند کر دیں۔ 2018ء میں انہوں نے بی بی سی عربی چینل پر یمن میں سعودی جنگ کے خاتمے کا مطالبہ کیا تھا لیکن اس کے بعد وہ میڈیا پر زیادہ نظر نہیں آئیں۔


مبصرین کے مطابق بظاہر شہزادی بسمہ کو ملک سے فرار ہونے کے شُبے میں گرفتار کیا گیا ہے لیکن ان کی مبینہ نظربندی کے پیچھے ان کا کوئی خاندانی تنازعہ یا کوئی قانونی مسئلہ بھی ہو سکتا ہے۔ لندن اسکول آف اکنامکس میں سعودی سیاست اور شاہی خاندان کے امور کی ماہر مضاوی الرشید کا کہنا ہے، '' ہو سکتا ہے کہ شہزادی بسمہ کو وراثتی جائیداد یا اولاد کی حوالگی کے خاندانی تنازعے کی وجہ سے ملک چھوڑنے یا بیٹی کو ساتھ لے جانے سے منع کیا گیا ہو۔‘‘

لیکن انہوں نے یہ بھی کہا، ''یہ حیران کن ہے کہ ایک نڈر اور بے باک بات کرنے والی شہزادی کو سعودی حکام اور شاہی حکمرانوں کو اطلاع دیے بغیر روک لیا جائے۔‘‘ مضاوی الرشید کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہو سکتا ہے کہ ان کو شاہی خاندان کے خلاف بولنے سے روکنے کے لیے ایسا کیا گیا ہو۔ وکیل لیونارڈ بینیٹ کا کہنا ہے کہ موجودہ سعودی انتظامیہ کا خیال ہے کہ شہزادی کو ملک کے اندر رہنا چاہیے، '' کیونکہ وہ خواتین کے حقوق کی علمبردار ہیں اور اگر وہ بیرون ملک چلی گئیں تو وہ پہلے سے بھی زیادہ نڈر ہو کر بات کریں گی۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔