جموں و کشمیر: کٹھوعہ واقعہ کے خلاف پرتشدد احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری

شوپیان، پانپور اور پلوامہ قصبوں میں پیر کو طلباء کی سیکورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپیں ہوئیں۔ ضلع بارہمولہ کے قصبہ سوپور میں بھی درجنوں طالب علم سڑکوں پر نکل آئے اور قاتلوں کو پھانسی دے دینے کا مطالبہ کیا۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

یو این آئی

سری نگر : کٹھوعہ کی آٹھ سالہ کمسن بچی کی وحشیانہ عصمت دری اور قتل واقعہ کے ملوثین کو پھانسی دینے کے مطالبے پر وادی کے متعدد تعلیمی اداروں میں پیر کو ایک بار پھر احتجاجی مظاہرے ہوئے جس کے دوران تشدد برپا ہو گیا۔ اس دوران پتھراؤ کے مرتکب احتجاجی طلباء کی سیکورٹی فورسز کے ساتھ جھرپیں بھی ہوئیں جن میں طالب علموں سمیت متعدد افراد زخمی ہوئے۔ جنوبی کشمیر سے موصولہ اطلاعات کے مطابق قصبہ اننت ناگ میں پیر کی صبح طالب علموں کی سیکورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپیں ہوئیں جن میں ایک طالب علم زخمی ہوا۔

اطلاعات کے مطابق شوپیان ، پانپور اور پلوامہ قصبوں میں بھی پیر کو طلباء کی سیکورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپیں ہوئیں۔ شمالی کشمیر سے موصولہ اطلاعات کے مطابق ضلع بارہمولہ کے قصبہ سوپور میں پیر کی صبح درجنوں طالب علم سڑکوں پر نکل آئے اور آٹھ سالہ کمسن بچی کے قاتلوں کو پھانسی دینے کا مطالبہ کرنے لگے۔ احتجاجی طلباء جنہوں نے اپنے ہاتھوں میں پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے، نے قصبہ میں احتجاجی مارچ نکالنے کی کوشش کی۔

تاہم جب سیکورٹی فورسز نے انہیں آگے بڑھنے کی اجازت نہیں دی تو طرفین کے مابین جھڑپیں شروع ہوئیں۔

سیکورٹی فورسز نے پتھراؤ کے مرتکب احتجاجی طالب علموں کو منتشر کرنے کے لئے لاٹھی چارج اور آنسو گیس کا شدید استعمال کیا۔ وادی کے مختلف دیگر علاقوں میں بھی طالب علموں کی جانب سے احتجاجی مظاہرے کئے گئے ، تاہم ان کے شرکاء پرامن طور پر منتشر ہوئے۔

واضح رہے کہ کٹھوعہ کی آٹھ سالہ کمسن بچی کی وحشیانہ عصمت دری اور قتل واقعہ کے خلاف وادی کے تعلیمی اداروں میں گذشتہ قریب دو ہفتوں سے پرتشدد احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔ ان احتجاجی مظاہروں کے پیش نظر انتظامیہ کو مجبوراً بعض تعلیمی اداروں میں درس وتدریس کی سرگرمیاں معطل رکھنی پڑ رہی ہیں۔

گذشتہ دو ہفتوں کے دوران وادی کے تعلیمی اداروں میں ہونے والے پرتشدد احتجاجی مظاہروں میں قریب 200 طالب علم زخمی ہوئے۔ جموں وکشمیر میں تعلیم ، خزانہ اور محنت و روزگار کے وزیر سید محمد الطاف بخاری نے گذشتہ روزکشمیر کے تعلیمی اداروں میں کٹھوعہ واقعہ کے خلاف جاری احتجاجی مظاہروں کی لہرپر اپنی ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم اپنی نئی نسل کو ’ان پڑھ‘ رہنے نہیں دیں گے۔ انہوں نے کالجوں اور سکولوں میں زیر تعلیم طالب علموں سے اپیل کی تھی کہ وہ اپنے جذبات پر قابو رکھیں اور واقعہ پر عدالت کے فیصلے کا انتظار کریں۔ بخاری نے سخت رویہ اختیار کرتے ہوئے کہا تھا کہ کلاس چھوڑ کر سڑک پر آنے والے طالب علموں کو روڈیز تصویر کیا جائے۔ انہوں نے کہا تھا کہ معمول کی تعلیمی سرگرمیوں میں رخنہ اندازی کا سلسلہ جاری رہا تو تعلیمی اداروں کو ہمیشہ کے لئے بند کریں گے۔

اس بیان کے ایک روز بعد یعنی 22 اپریل کو بخاری نے کہا کہ ایسے تمام پرائیویٹ ٹیوشن مراکز ، جہاں 12 ویں جماعت تک کی کلاسوں کے لئے ٹیوشن دیا جارہا ہے کو فی الحال بند کرنے کا فیصلہ لیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ فیصلہ ریاست میں تعلیمی ماحول کی شفافیت کو یقین بنانے اور نظام تعلیم کو مزید مستحکم بنانے کے لئے لیا گیاہے۔

ضلع کٹھوعہ کے تحصیل ہیرانگر کے رسانہ نامی گاؤں کی رہنے والی آٹھ سالہ کمسن بچی جو کہ گجر بکروال طبقہ سے تعلق رکھتی تھی، کو 10 جنوری کو اُس وقت اغوا کیا گیا تھا جب وہ گھوڑوں کو چرانے کے لئے نزدیکی جنگل گئی ہوئی تھی۔ اس کی لاش 17 جنوری کو ہیرا نگر میں جھاڑیوں سے برآمد کی گئی تھی۔

کرائم برانچ پولس نے گذشتہ ہفتے واقعہ کے سبھی 8 ملزمان کے خلاف چالان عدالت میں پیش کیا۔ کرائم برانچ نے اپنی تحقیقات میں کہا ہے کہ آٹھ سالہ بچی کو رسانہ اور اس سے ملحقہ گاؤں کے کچھ افراد نے عصمت ریزی کے بعد قتل کیا۔ تحقیقات کے مطابق متاثرہ بچی کے اغوا، عصمت دری اور سفاکانہ قتل کا مقصد علاقہ میں رہائش پذیر چند گوجر بکروال کنبوں کو ڈرانا دھمکانا اور ہجرت پر مجبور کرانا تھا۔ تحقیقات میں انکشاف ہوا ہے کہ کمسن بچی کو اغوا کرنے کے بعد ایک مقامی مندر میں قید رکھا گیاتھا جہاں اسے نشہ آور ادویات کھلائی گئیں اور قتل کرنے سے پہلے اسے مسلسل درندگی کا نشانہ بنایا گیا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔