”نہ جانے ہم کب آزاد فضا میں سانس لے سکیں گے‘‘

افغانستان کے امرا اور شرفا کی عیاشیوں کے خلاف غربت کے ستائے عام لوگوں میں غم و غصہ بڑھ رہا ہے۔ ایسے میں بعض لوگ طالبان کی طرف مائل ہو رہے ہیں۔

”نہ جانے ہم کب آزاد فضا میں سانس لے سکیں گے‘‘
”نہ جانے ہم کب آزاد فضا میں سانس لے سکیں گے‘‘
user

ڈی. ڈبلیو

دس سالہ کامران روزانہ فجر سے پہلے اپنے والد کے ساتھ کابل کے مضافات میں واقع ایک بھٹے پر کام کے لیے نکلتا ہے۔ افغانستان میں اکثر والدین کی طرح اس کے والدین کی اتنی حیثیت نہیں کہ وہ اسے اسکول بھیج سکیں۔ کامران کے والد عتیق اللہ اپنے آٹھ بچوں کی کفالت کے ساتھ ساتھ اپنے کئی بہن بھائیوں اور ان کے بچے بچیوں کی بھی دیکھ بھال کرتے ہیں۔ کامران کے خاندان کے مردوں میں ایک بیمار ہیں جبکہ دوسرے انتقال کر چکے ہیں۔ ان کے بچے بھی اب کامران کے والد عتیق اللہ کی سرپرستی میں ہیں۔

عتیق اللہ کہتے ہیں،''میرے بچے صبح سویرے اٹھتے ہیں اور نماز کے بعد سیدھا کام پر آ جاتے ہیں۔ ان کے پاس اسکول جانے کا وقت نہیں۔ آج کل حالات ایسے ہیں کہ جو کام نہیں کرتا، اس کے پاس کھانے کو بھی کچھ نہیں ہوتا۔‘‘


امریکا اور اس کے اتحادی پچھلے اٹھارہ برس کے دوران افغانستان میں تعمیر نو کے نام پر اربوں ڈالر لگا چکے ہیں لیکن اب بھی یہاں ہر طرف غربت ہی غربت ہے۔ بچوں سے لے کر خاندان کے خاندان سڑکوں پر بھیک مانگتے نظر آتے ہیں۔ اینٹیں بنانی والی بھٹیوں میں پانچ چھ سال کے بچے سخت گرمی میں مشقت کرتے نظر آتے ہیں۔

عتیق اللہ کا تعلق مشرقی ننگرہار صوبے سے ہے، جہاں حالیہ برسوں میں طالبان اور داعش کے درمیان سخت جھڑپیں ہوتی رہیں۔ بھٹہ مالکان لوگوں کی معاشی مجبوریوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انہیں بنیادی ضروریات کے لیے قرضوں کی پیش کش کرتے ہیں۔ قرض لینے کے بعد انہیں گرمیوں کے مہینوں میں مسلسل کام کر کے اسے واپس کرنا ہوتا ہے۔ یہ غلامی کا ایک سلسلہ ہے، جس میں دس مزدوروں پر مشتمل خاندان روزانہ اوسطاﹰ بہ مشکل بارہ سے اٹھارہ ڈالر ہی کما سکتا ہے۔


افغانستان کے لیے عالمی بینک کی سابق ڈائریکٹر شبنم چوہدری کے مطابق ملک کی نصف سے زائد آبادی روزانہ ایک ڈالر سےکم پر گزارا کرنے پر مجبور ہے۔ وہ کہتی ہیں، ''افغانستان میں آج غربت بہت زیادہ اور وسعت اختیار کر چکی ہے۔‘‘

بدعنوانی کے رجحانات پر نظر رکھنے والی تنظیم ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے مطابق افغانستان کا شمار دنیا کے کرپٹ ترین ممالک میں ہوتا آیا ہے۔ باہر سے آنے والی امداد کا بڑا حصہ سابقہ جنگجو کمانڈروں کی جیبوں میں چلا گیا، جس کی مثال ان کا شاہانہ اور محفوظ طرز زندگی اور خلیجی ممالک میں ان کی ملکیتں اور بینک اکاؤنٹ ہیں۔


افغانستان کے امرا اور شرفا کی عیاشیوں کے خلاف غربت کے ستائے عام لوگوں میں غم و غصہ بڑھ رہا ہے اور بعض لوگ طالبان کی طرف مائل ہو رہے ہیں۔ عالمی بینک کے مطابق اگر امریکا اور طالبان کے درمیان کوئی سیاسی تصفیہ ہو جاتا ہے تو اس سے افغان معیشت میں بہتری کی راہیں نکل سکتی ہیں۔ لیکن یہ ترقی تبھی آئے گی، جب سکیورٹی کی مخدوش صورتحال بہتر ہو گی۔

لیکن پینسٹھ سالہ بھٹہ مزدور جان آغا کے مطابق مستقبل میں بہتری کی کوئی خاص امید نظر نہیں آتی۔ وہ بیس سال پاکستان کے پناہ گزین کیمپوں میں رہے اور پچھلے تیس سال سے اپنے قرضے چکانے کی کوشش میں ہیں۔ آج مجبوراً ان کے چار بیٹے بھی اسی کام میں لگ چکے ہیں اور انہیں لگتا ہے کہ یہی حالات رہے تو ان کی آنے والی نسلیں بھی یہی کام کر رہی ہوں گی۔


وہ کہتے ہیں، ''نہ جانے وہ وقت کب آئے گا، جب ہم آزاد فضا میں سانس لے سکیں گے۔ فی الحال تو بس ہم غلامی کی زندگی جینے پر مجبور ہیں۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔