میرٹھ یونیورسٹی میں نقاب پر پابندی کے پیچھے سیاسی سازش کی بو

مقامی دانشوروں کا کہنا ہے کہ اگر یونیورسٹی کو ایسا لگتا ہے کہ باہر کی لڑکیاں کیمپس میں آتی ہیں تو وہ صدر دروازے پر ایک ٹیم تعینات کریں جو ان کا شناختی کارڈ چیک کرے اور پھر اندر داخل ہونے دے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

آس محمد کیف

2019 کے عام انتخابات نزدیک آنے کے ساتھ ہی پولرائزیشن کی کوششیں بھی تیز ہو رہی ہیں۔ مغربی اتر پردیش کی بے حد اہم سمجھی جانے والی چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی نے ایک حیرت میں ڈالنے والے فیصلے کے تحت کیمپس میں نقاب پہن کر لڑکیوں کے داخلے پر پابندی عائد کر دی ہے۔ تین دن قبل یونیورسٹی میں ہوئی میٹنگ کے بعد اس سلسلے میں فیصلہ لیا گیا تھا جو اب طول پکڑ گیا ہے۔ میرٹھ کے شہر قاضی پروفیسر زین الساجدین نے اسے مذہبی آزادی پر حملہ قرار دیا ہے۔

میرٹھ میں مسلم طبقہ میں اس فیصلے کے بعد زبردست ناراضگی ہے۔ حالانکہ یونیورسٹی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ صرف مسلم لڑکیوں کو توجہ میں رکھ کر نہیں لیا گیا ہے بلکہ اس کے مرکز میں وہ لڑکیاں ہیں جو کیمپس میں بغیر شناختی کارڈ داخل ہو جاتی ہیں اور ان کا چہرہ نقاب سے ڈھکا رہتا ہے۔ ذرائع کے مطابق یونیورسٹی کی چیف پراکٹر الکا چودھری کا اس فیصلے میں انتہائی اہم کردار ہے۔

شہر قاضی کے مطابق اگر یونیورسٹی کو ایسا لگتا ہے کہ باہر کی لڑکیاں کیمپس میں آتی ہیں تو وہ صدر دروازے پر ایک ٹیم تعینات کریں جو ان کا شناختی کارڈ چیک کرے اور پھر اندر داخل ہونے دے۔ شناختی کارڈ والی لڑکی برقع میں ہے یا شلوار سوٹ میں، اس سے کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ شہر قاضی کی قیادت میں ایک نمائندہ وفد جمعرات کو ڈویژنل کمشنر اور ضلع مجسٹریٹ سے ملے گا۔

چونکہ میرٹھ ایک حساس شہر ہے اس لیے یونیورسٹی میں جاری تازہ فرمان یقینی طور پر یہاں کشیدگی پیدا کرے گا۔ یونیورسٹی کے سابق طلبا لیڈر راحت علی ہمیں بتاتے ہیں کہ یہ پوری طرح سے غلط فیصلہ ہے جس سے ایک بڑی سیاسی سازش کی بو آتی ہے۔

گزشتہ ہفتہ کو پروکٹوریل بورڈ کی میٹنگ میں لیے گئے اس فیصلے کی بنیاد دراصل ایک واقعہ کو بنایا گیا ہے۔ چیف پروکٹر الکا چودھری کے مطابق چیکنگ کے دوران ایک لڑکا-لڑکی درخت کے نیچے بیٹھ کر کھانا کھا رہے تھے۔ ہم نے ان سے ان کا شناختی کارڈ مانگا تو انھوں نے بتایا کہ وہ تو ایسے ہی گھومنے آ گئے تھے۔ اس کے بعد ہم نے باہری لوگوں کو روکنے کے لیے نقاب پر پابندی عائد کی۔ یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ باہری لڑکوں کو شناختی کارڈ کے ذریعہ روکا جائے گا تو پھر لڑکیوں کی شناخت صرف نقاب کی بنیاد پر کیسے کی جا سکے گی؟ کیا یونیورسٹی کا گیٹ کیپر اپنے یہاں پڑھنے والی ہزاروں لڑکیوں کو صرف چہرے سے پہنچاتا ہے! سوال یہ بھی ہے کہ جو کل تک نقاب پہن کر آ رہی تھی ان کو آج گیٹ کیپر کس طرح پہچان پائیں گے!

یونیورسٹی کی سابق طالبہ ناہید فاطمہ ’قومی آواز‘ کو بتاتی ہیں کہ اس کے لیے یونیورسٹی مینجمنٹ صدر دروازے پر دو خاتون گارڈ کی تعیناتی کریں جو لڑکیوں کی شناختی کارڈ چیک کر ہی انھیں اندر جانے دیں۔ تب یہ مسئلہ ہی حل ہو جائے گا کہ باہری لڑکیاں اندر کس طرح آ جاتی ہیں۔

میرٹھ کے سماجی کارکن عبدالغفار منصوری کہتے ہیں کہ یہ وہ یونیورسٹی ہے جہاں ہر دن گولیاں چلتی ہیں، ہنگامہ ہوتا ہے اور امتحان کی کاپیوں میں دھاندلی ہوتی ہے۔ اس کی شبیہ پوری ریاست میں سب سے بدترین نظام والی یونیورسٹی کی ہے اور اس یونیورسٹی کی انتظامیہ کو برائی کی جڑ ایک نقاب میں دکھائی دے رہی ہے۔ ظاہر ہے یہ فیصلہ فرقہ وارانہ پولرائزیشن کی کوششوں کا حصہ ہے۔

یونیورسٹی انتظامیہ کے اس فیصلے سے مسلم طبقہ پر برا اثر پڑنے کا اندیشہ ہے۔ اس سلسلے میں میرٹھ کے ذاکر کالونی باشندہ اسلم صدیقی کہتے ہیں کہ ’’اب کل کو اگر کچھ خواتین برقع پہن کر جرائم کرنے لگیں گی تو کیا برقع پر بھی پابندی عائد کر دی جائے گی۔ اگر ہماری بیٹی کو زبردست نقاب اتارنے کے لیے کہا جائے گا تو یہ ہم کبھی برداشت نہیں کریں گے۔ ہم اپنی بیٹی کو اس یونیورسٹی میں پرھنے ہی نہیں بھیجیں گے۔‘‘ قابل ذکر ہے کہ اسلم صدیقی کی بیٹی اسی یونیورسٹی کیمپس میں تعلیم حاصل کر رہی ہے۔

شہر قاضی کے مطابق یہ حقوق انسانی کی خلاف ورزی کا معاملہ ہے۔ مذہبی آزادی کو کچلا جا رہا ہے اور اس قدم سے مسلم لڑکیوں کی پڑھائی کو متاثر کیا جا رہا ہے۔ اس سے مسلم لڑکیوں میں ناخواندگی بڑھے گی اور ’بیٹی بچاؤ-بیٹی پڑھاؤ‘ نعرہ کی بھی کوئی اہمیت نہیں رہ جائے گی۔ انھوں نے مزید کہا کہ نقاب مسلمانوں کی تہذیب سے جڑا معاملہ ہے اس لیے یونیورسٹی انتظامیہ کا فیصلہ ناقابل قبول ہے۔ اگر یہی حال رہا تو کل یہ لوگ برقع پر بھی اعتراض کرنا شروع کر دیں گے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔