معمر کشمیری سیاسی قیدی کی جیل میں موت

ہندواڑہ کے کُلنگام علاقے میں اُس وقت صف ماتم بچھ گئی، جب مقامی باشندوں کو بُزرگ رہنما غلام محمد بھٹ کی اُتر پردیش کی ایک جیل میں ہوئی اچانک موت کی خبر موصول ہوئی۔

معمر کشمیری سیاسی قیدی کی بھارتی جیل میں موت
معمر کشمیری سیاسی قیدی کی بھارتی جیل میں موت
user

ڈی. ڈبلیو

گزشتہ اتوار شام سینکڑوں رشتہ داروں، دوستوں اور ہمسایوں نے پُرنم آنکھوں سے بھٹ کی نعش کو ان کے آبائی علاقے کلنگام میں سُپرد خاک کیا۔ قریبی رشتہ داروں کے مطابق جیل حکام نے انہیں جمعہ کی شام غلام محمد بھٹ کے فوت ہونے کی اطلاع دی تھی۔

بھٹ کے بیٹے حنیف بھٹ نے اپنے والد کی جیل میں ہوئی موت کی خبر کی تصد یق کرتے ہوئے بتایا، ''ہمیں اپنے والد صاحب کی موت کی اصل وجہ اب بھی نہیں معلوم۔ جیل حکام نے ہمیں بس اتنا بتایا کہ بھٹ صاحب کے جگر میں کچھ پیچیدگیاں پیدا ہوئیں تھیں۔‘‘


کپواڑہ کے ڈپٹی کمشنر اَنشُل گرگ نے صحافیوں کو بتایا کہ جولائی میں بھٹ کو پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کر کے پہلے سری نگر کے سینٹرل جیل پہنچایا گیا تھا، ''غلام محمد بھٹ کو وادی کشمیر سے باہر لیجانے کا فیصلہ وزارت داخلہ نے کیا۔ ہمیں ان کے علیل ہونے کی معلومات نہیں تھی تاہم اُتر پردیش کے پریاگ راج جیل حکام نے ہمیں ان کی موت کی خبر دی۔ ہمیں ان کی موت کی وجوہات کے بارے میں کچھ نہیں معلوم۔‘‘

بھٹ کا تعلق جماعت اسلامی جموں و کشمیر سے تھا اور انہیں رواں برس جولائی میں 'پبلک سیفٹی ایکٹ‘ کے تحت سرحدی ضلع کپواڑہ کے کُلنگام سے گرفتار کر کے اُتر پردیش کے پرہاگ راج کی نینی جیل منتقل کیا گیا تھا۔ 67 سالہ بھٹ کے اہل خانہ کے مطابق گرفتاری کے وقت بھی وہ کئی امراض میں مبتلا تھے۔ رواں برس اگست سے پیدا شدہ سیاسی حالات کے بعد غلام محمد بھٹ بھارکشمیر کے پہلے ایسے سیاسی رہنما ہیں، جن کی بھارتی جیل میں موت واقع ہوئی ہے۔


بہرحال جموں و کشمیر کے تین سابق وزرائے اعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ، ان کے فرزند عمر عبداللہ اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی سربراہ محبوبہ مفتی بھی مسلسل نظر بند ہیں۔ اس کے علاوہ نامور سابقہ بیوروکریٹ اور نوجوان سیاست دان شاہ فیصل، سجاد غنی لون، وحید الرحمان پرہ، علی ساگر، تنویر صادق اور درجنوں ہند نواز سیاست دان بھی ‘احتیاطی حراست' میں ہیں۔

اُتر پردیش کی آگرہ جیل میں تقریباً ساڑھے تین ماہ قید رہنے کے بعد معروف کشمیری تاجر رہنما اور سول سوسائٹی کے سرکردہ کارکن مُبین احمد شاہ ابھی حال ہی میں رہا ہوئے۔ مُبین شاہ کے اہل خانہ نے عدالت میں ان کی گرفتاری کے خلاف ایک درخواست دائر کر کے ان پر عائد پبلک سیفٹی ایکٹ کو چیلنج کیا تھا۔


اپنی رہائی کے فوراً بعد ڈوئچے ویلے اُردو سے خصوصی گفتگو میں مبین شاہ نے بتایا، ''بے شک جیل جیل ہے، گھر نہیں۔‘‘

شاہ نے مزید بتایا، ''جیل میں رات بھر آرام نہیں ملتا تھا۔ میں پروسٹیٹ کے مرض میں مبتلا ہوں۔ جیل میں ہر رات تقریباً پانچ مرتبہ رفع حاجت کے لیے جاگنا پڑتا تھا۔ جس سیل میں مجھے رکھا گیا تھا وہاں کوئی معقول انتظامات نہیں تھے۔ اب امریکا جاوٴں گا اور وہاں پروسٹیٹ کا آپریشن کروانا ہے۔‘‘


شاہ کو سری نگر میں واقع اپنی رہائش گاہ سے چار اگست کو گرفتار کیا گیا تھا۔ بھارتی حکومت نے ان پر یہ الزامات عائد کئے تھے کہ انہوں نے ''سن 2008ء، 2010ء اور 2016ء میں کشمیر میں ہونے والے بھارت مخالف عوامی مظاہروں میں اپنے مبینہ سخت گیر بیانات کے ذریعے ریاست مخالف افعال میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔‘‘

شاہ ملائشیا میں مقیم کشمیری تاجر ہیں۔ انہوں نے بتایا، ''مجھے یہ نہیں معلوم مجھے کس جرم کی سزا دی گئی۔ میں سن 2010ء میں امریکا میں تھا اور مجھ پر یہ الزام ہے کہ میں نے سن دو ہزار دس میں کشمیر میں کچھ کیا تھا۔‘‘


انہوں نے بتایا کہ جیل میں ان کے ساتھ دو اور معروف کشمیری رہنما، ایڈووکیٹ میاں قیوم اور تاجر لیڈر محمد یاسین خان نظر بند تھے۔ میاں قیوم کشمیر ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر ہیں جبکہ یاسین خان کشمیر اکنامک الائنس کے سربراہ ہیں۔ اسی طرح کشمیر سول سوسائٹی کے اہم رہنما شکیل قلندر بھی اگست کے اوائل سے سری نگر سینٹرل جیل میں قید ہیں۔

مُبین شاہ نے کشمیر چیمبر آف کامرس کی جانب سے ان کی گرفتاری پر چپ سادھنے پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ''عین ممکن ہے کہ چیمبر والے بھی اس وقت خوف کے سائے میں جی رہے ہیں۔‘‘


دریں اثناء بھارت کی وزارت برائے داخلی امور نے اسی سال جماعت اسلامی پر آئندہ پانچ برس تک پابندی عائد کرنے کے اپنے فیصلے کے فوراً بعد ہی اس تنظیم سے وابستہ سینکڑوں بنیادی ارکان، ذمہ داران اور ہمدردوں کو گرفتار کر لیا، جن میں جماعت اسلامی کے امیر حمید فیاض بھی شامل ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔