کیا پاکستان ایران اور سعودی عرب کشیدگی کو ختم کرا سکتا ہے ؟

کیا پاکستان واقعی ایران اور سعودی عرب کے درمیان جاری کشیدگی کو ختم کرنے میں کوئی کردار ادا کر سکتا ہے؟ تجزیہ کاروں کی رائے اس حوالے سے بٹی ہوئی ہے۔

کیا پاکستان ایران اور سعودی عرب کشیدگی کو ختم کرا سکتا ہے ؟
کیا پاکستان ایران اور سعودی عرب کشیدگی کو ختم کرا سکتا ہے ؟
user

ڈی. ڈبلیو

پاکستانی وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ پاکستان ایران اور سعودی عرب کے درمیان حالیہ کشیدگی کے خاتمے کے لیے سہولت کار بن سکتا ہے۔ عمران خان کا کہنا ہے کہ مسئلہ پیچیدہ ہونے کے باوجود حل کیا جاسکتا ہے۔ گزشتہ روز تہران میں ایرانی صدر حسن روحانی کے ہمراہ پریس کانفرنس کے دوران عمران خان کا کہنا تھا،'' پاکستان نے ماضی میں سعودی عرب اور ایران دونوں ممالک کی میزبانی کی ہے اور ایک مرتبہ پھر دونوں برادر ممالک کو پیشکش کرتا ہے کہ وہ پر امن انداز سے اپنے اختلافات کو بات چیت سے حل کرنے کی کوشش کریں۔‘‘ عمران خان کا کہنا تھا کہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان تنازعہ صرف اس خطے کو نہیں بلکہ کئی ترقی پذیر ممالک کو متاثر کرے گا۔ کشیدگی کے باعث تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا، کئی ممالک کے اخراجات میں اضافہ ہو گا اور یوں غربت میں بڑھے گی۔‘‘

پاکستان کیا کردار ادا کر سکتا ہے ؟

پاکستان کی خارجہ پالیسی اور سکیورٹی صورتحال پر کئی کتابوں کے مصنف زاہد حسین کی رائے میں یہ پاکستان کے بس کی بات نہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا،'' ایران اور سعودی عرب کے تنازعات بہت گہرے ہیں، دونوں ممالک کے درمیان خطے میں طاقت کے حصول کی جنگ ہے۔ ایسے میں پاکستان کے پاس ایسی پوزیشن نہیں ہے کہ وہ اس بہت پیچیدہ مسئلے میں سہولت کار بن سکے، لگتا نہیں ہے کہ اس حوالے سے کوئی بہت زیادہ پیش رفت ہوگی۔‘‘ زاہد حسین کہتے ہیں کہ سعودی عرب ایران کو سب سے بڑا خطرہ سمجھتا ہے اور ایران کے خلاف اس کی پوزیشن بہت سخت ہے ایسے میں ان دو ممالک کو بات چیت پر آمادہ کرنا اتنا آسان نہیں ہوگا۔

ایران کی صورتحال بھی کچھ زیادہ مضبوط نہیں۔ ایران پر امریکا کی اقتصادی پابندیاں برقرار ہے اور سعودی عرب کے ساتھ کشیدگی کے باعث جنگ کی صورت میں اسے کثیر سرمایہ درکار ہوگا۔ اویس توحید کہتے ہیں کہ دونوں فریقین آخر کار بات چیت کی میز پر آئیں گے اور اس میں پاکستان ان دونوں ممالک کے ساتھ تعلقات کی بنا پر کردار ادا کرسکتا ہے۔

اسلام آباد میں قائم انسٹیٹیوٹ آف اسٹریٹیجک اسٹڈیز کے ڈائریکٹر جنرل اور پاکستان کے سابق سکریٹری خارجہ اعزاز احمد چوہدری نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں کہا،'' پاکستان کے لیے دونوں ممالک اہمیت رکھتے ہیں اور دونوں ممالک میں پاکستان کو بھی مثبت انداز میں دیکھا جاتا ہے۔ اور اس بات کا ادراک سب کو ہو گیا ہے کہ جنگ کا نقصان سب کو ہوگا۔ نہ صرف دونوں ممالک کی تیل کی تنصیبات، انڈسٹری اور دیگر اثاثوں کو نقصان پہنچے گا بلکہ پورا خطہ اس سے متاثر ہوگا۔‘‘ اعزاز احمد چوہدری کہتے ہیں کہ کشیدگی کے باعث عالمی سطح پر تیل کی رسد گھٹتی ہے تو پوری دنیا کے لیے لمحہٴ فکریہ ہوگا۔ ماضی میں بھی پاکستان ایران اور سعودی عرب کے درمیان بات چیت میں سہولت کار کا کردار ادا کر چکا ہے لہٰذا اب بھی اس کام کے لیے پاکستان کا ہی نام لیا گیا ہے۔

پاکستان سہولت کار بن کر کیا حاصل کر سکتا ہے ؟

اس بار ے میں اویس توحید کہتے ہیں کہ ماضی میں پاکستان کا نام دہشت گردی کے حوالے سے لیا جاتا تھا۔ اسے خطر ناک ملک کہا جاتا تھا۔ اگر پاکستان سعودی عرب اور ایران کے درمیان بات چیت میں سہولت کاری کا کردار ادا اکرسکتا یے تو پاکستان عالمی سطح پر اپنا تاثر مثبت بنا سکتا ہے۔ فرقہ واریت نے پاکستان کو کافی عرصے اپنی لپیٹ میں لیے رکھا ہے۔ اور اگر پاکستان سعودی عرب اور ایران کے درمیان کشیدگی ختم کرنے میں مثبت کرادر ادا کرتا ہے تو پاکستان کو اندرونی طور پر شیعہ سنی تنازعہ کے حوالے سے مثبت ردعمل دیکھنے کو ملے گا۔ اعزاز احمد چوہدری کہتے ہیں کہ اگر معاملات خراب ہوتے ہیں تو خود پاکستان کو بھی نقصان ہوگا کیوں کہ امریکی پابندیوں کے باعث پاکستان ایران کے ساتھ مضبوط تجارتی تعلقات نہیں بنا سکا۔ تو مثبت پیش رفت کی صورت میں یہ عین ممکن ہے کہ مستقبل میں ایران پر یہ پابندیاں اٹھائی جائیں اور یوں پاکستان بھی اس صورتحال کا فائدہ اٹھا سکے گا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔