مظفر نگر فساد کے پانچ سال بعد بھی بدحال ہیں لاپتہ لوگوں کے اہل خانہ

8 ستمبر 2013 کو رات مظفر نگر کے شاہ پور تھانہ علاقہ کے ہڑولی گاؤں میں شیطان بن چکے انسانوں نے گروپ بنا کر اقلیتوں پر حملہ کر دیا تھا۔ حملہ آوروں کے ہاتھوں میں گنڈاسے، بلّم، تلواریں اور بندوقیں تھیں۔

تصویر آس محمد کیف
تصویر آس محمد کیف
user

آس محمد کیف

مظفر نگر: 5 سال قبل ہوئے مظفر نگر فساد میں متاثرین کو انصاف ملنے کی امید ختم ہونے لگی ہے۔ حد یہ ہے کہ فساد میں مارے گئے لوگوں کے سبھی اہل خانہ کو اب تک معاوضہ بھی نہیں مل پایا ہے جب کہ فسادات کے ملزمین کو عدالتیں ثبوتوں کی کمی میں بری بھی کرنے لگی ہے۔ سب سے بدتر حالات ان متاثرین کی ہے جن کے قریبی 5 سال پہلے فسادات میں لاپتہ ہوئے تھے اور انھیں مردہ تصور کر لیا گیا تھا۔ ایسے لوگوں کی تعداد تقریباً 27 بتائی جاتی ہے۔ ان میں سے 15 کو اکھلیش حکومت نے 2016 میں معاوضہ دیا تھا۔ ان میں سب سے زیادہ بری حالت ہڑولی گاؤں میں رہنے والے جمّا کی ہوئی۔

8 ستمبر 2013 کو رات 8 بجے مظفر نگر کے شاہ پور تھانہ علاقہ کے ہڑولی گاؤں میں شیطان بن چکے انسانوں نے گروپ بنا کر اقلیتوں پر حملہ کر دیا تھا۔ حملہ آوروں کے ہاتھوں میں گنڈاسے، بلّم، تلواریں اور بندوقیں تھیں۔ اس واقعہ کی چشم دید 40 سالہ مومنہ بتاتی ہیں کہ ’’حملے میں شامل سبھی لوگ جاٹ نہیں تھے بلکہ جھینور (کشیپ) آگے آگے تھے۔ مسجد میں آگ لگا دی گئی۔ ہمارے گھروں مین لوٹ پاٹ ہوئی۔ زیادہ تر لوگ اپنا گھر چھوڑ کر بھاگ گئے۔ ہم ایک گھر میں چھپ گئے۔ ہم بچ گئے لیکن میرے جیٹھ جمّا مار دیے گئے۔ 52 سالہ جمّا ضدی تھے اور وہ اپنے گھر سے باہر نہیں بھاگے۔ انھوں نے شادی نہیں کی تھی اس لیے یہ کہہ کر گھر نہیں چھوڑا کہ مر بھی جاؤں گا تو میرا کیا ہے!‘‘ وہ مزید کہتی ہیں کہ ’’انھیں مار دیا گیا۔ پولس ہمیں بچا کر لے آئی، لیکن ان کی لاش نہیں ملی۔‘‘

مومنہ اب ہڑولی سے 3 کلو میٹر پہلے شکار پور گاؤں میں رہتی ہے۔ یہاں ایک تالاب کے کنارے ہڑولی سے راتوں رات جان بچا کر بھاگ آئے 39 اقلیتی مسلمانوں کی رہائش ایک گندی سی نظر آنے والی بستی میں ہے۔ وہ کہتی ہے ’’ہماری جان بچ گئی اور یہ بھی پتہ چل گیا کہ سمیر (جمّا کے بھائی کا بیٹا) کے تایا ابا کو کاٹ کر مار دیا گیا۔ لیکن ان کی لاش نہیں ملی۔ کچھ ایسے لوگ بھی تھے جنھوں نے ان کو مارے جاتے ہوئے دیکھا۔ مارنے والے گاؤں میں یہاں تک کہتے ہوئے گھوم رہے تھے کہ ایک ’کٹوا‘ کم کر دیا۔ چار دیگر لوگوں کو بھی کاٹا گیا لیکن وہ بچ گئے۔ پولس نے ایف آئی آر لکھنے سے یہ کہتے ہوئے منع کر دیا کہ جب لاش ہی نہیں ملی تو پھر قتل کا مقدمہ درج نہیں کیا جا سکتا۔‘‘

جمعیۃ علماء ہند کے ترجمان مولانا موسیٰ قاسمی اس سے آگے کی کہانی سناتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ’’اکتوبر 2013 میں بے حد گزارش کے بعد انتظامیہ نے بری طرح جل چکے جمّا کے گھر کے ملبے کو جے سی بی مشین سے ہٹایا۔ ملبے کو ہٹانے پر ہڈیاں مل گئیں لیکن ایک خاص سازش کے تحت انھیں جانور کی ہڈیاں بتا دی گئیں۔ اس کے بعد ان ہڈیوں کو ڈی این اے ٹیسٹ کے لیے بھیج دیا گیا۔ ایک سال میں رپورٹ آئی اور ہڈیوں کے کسی انسان کے ہونے کی تصدیق ہو گئی۔ یہ شاید فساد میں ڈی این اے رپورٹ کی بنیاد پر قتل کے ملزم طے ہونے کا پہلا معاملہ تھا۔‘‘ وہ مزید بتاتے ہیں کہ ’’پولس نے اسی رپورٹ کی بنیاد پر 8 لوگوں کے خلاف قتل اور ثبوت مٹانے کا معاملہ درج کر لیا۔ یہ سبھی فی الحال ضمانت پر باہر ہیں۔ جمّا کا قتل ہوا، اسے اس کے گھر کے اندر جلا دیا گیا، ڈی این اے ٹیسٹ اور گواہوں کے بیانات سے اس کی تصدیق ہوئی، اس وقت کے ضلع مجسٹریٹ کوشل راج شرما نے اس پر حکومت کو باقاعدہ ایک رپورٹ بھیجی لیکن جمّا کے اہل خانہ کو ایک روپیہ بھی معاوضہ نہیں ملا۔‘‘

ضلع مجسٹریٹ کے ذریعہ حکومت کو بھیجی گئی رپورٹ کی کاپی
ضلع مجسٹریٹ کے ذریعہ حکومت کو بھیجی گئی رپورٹ کی کاپی

55 سالہ اسلامن ’قومی آواز‘ کو بتاتی ہے کہ ہڑولی سے جان بچا کر بھاگ آئے 39 اقلیتی مسلمانوں میں سے کسی کو کوئی معاوضہ نہیں ملا۔ لوگوں کو مارا گیا، کئی زخمی ہوئے، گھر جلا دیے گئے، سب کچھ جل کر خاک ہو گیا لیکن کوئی سرکاری مدد نہیں ملی۔ گاؤں میں سب نے اب اپنے اپنے گھر آدھی سے بھی کم قیمتوں پر فروخت کر دیے ہیں۔ ہمارے گھر پر اب اب جھینوروں (کشیپ) کا قبضہ ہے۔ وہ جو بھی پیسے دیں گے ہمیں لینے پڑیں گے، ورنہ ہم ان کا کیا بگاڑ لیں گے!‘‘

تصویر آس محمد کیف
تصویر آس محمد کیف

قابل ذکر ہے کہ اکھلیش حکومت نے مظفر نگر فساد کے بعد 95 کروڑ کا معاوضہ تقسیم کرنے کا دعویٰ کیا تھا جس میں مہلوکین کے گھر والوں کو 15-15 لاکھ اور زخمیوں و بے گھر لوگوں کو 5-5 لاکھ روپے دیے گئے۔ 2016 میں شاملی میں لساڑھ گاؤں کے 11 لاپتہ لوگوں کو بھی ہلاک مان کر معاوضہ دیا گیا۔ اس سے الگ بہاوڑی و دیگر گاؤں کے چار لوگوں کو بھی معاوضہ ملا، لیکن مظفر نگر فساد کے دوران سب سے زیادہ سرخیوں میں رہے قتل جمّا کے گھر والوں کو معاوضہ نہیں ملا۔ جمّا کے بھائی نذیر احمد کے مطابق معاوضہ دیے جانے کا فیصلہ مقامی لیڈروں کی مرضی سے کیا گیا جنھوں نے رشوت دینے والوں اور اپنے خاص لوگوں کو فائدہ پہنچا دیا جب کہ فساد میں برباد ہو گئے لوگ آج بھی دو وقت کی روٹی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔

اکھلیش حکومت کے ذریعہ دیے گئے معاوضے کے بعد اس وقت کی اپوزیشن پارٹی بی جے پی نے خوب ہنگامہ برپا کیا اور صوبائی حکومت پر خوش آمدی کرنے کا الزام عائد کیا تھا حالانکہ یہ معاوضہ یکساں طور پر تقسیم کیا گیا تھا لیکن سینکڑوں لوگ اس سے پھر بھی محروم رہ گئے۔ مظفر نگر کے راشد علی کے مطابق معاوضہ تقسیم میں سرکاری ملازمین اور مقامی لیڈروں نے ایمانداری سے کام نہیں لیا۔ حکومت کے ذریعہ سلیکشن کا طریقہ بھی عجیب تھا۔ مثلاً جن گاؤوں میں زیادہ تشدد برپا ہوا تھا یعنی لانک، بہاؤڑی، لساڑھ، محمد پور، رائے سنگھ، کٹبا کٹبی وغیرہ کے متاثرین کا علاقائی سطح پر سلیکشن کر لیا گیا جس سے کئی حقیقی متاثرین نہ انصاف پا سکے اور نہ ہی انھیں معاوضہ ملا۔

تصویر آس محمد کیف
تصویر آس محمد کیف

لساڑھ گاؤں کے ممتاز اب جولا میں رہتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’ان کا بھائی الیاس آج تک انھیں نہیں ملا۔ وہ کہاں ہے، ہمیں کچھ نہیں معلوم۔ گاؤں کے لوگ بتاتے ہیں کہ اسے گھر کے ساتھ خاکستر کر دیا گیا تھا۔ لاش ملتی بھی تو صبر ہو جاتا۔‘‘ شکار پور میں تالاب کے کنارے والی فساد متاثرین کی اس پوری بستی سمیت ایسے بہت سے فساد متاثرین ہیں جنھیں معاوضہ کی شکل میں ایک ڈھیلا بھی نہیں ملا اور یہ سب بدحالی کی زندگی گزار رہے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔