ہریانہ-مہاراشٹر کا انتخابی نتیجہ برآمد ہونے کے بعد جھارکھنڈ بی جے پی حواس باختہ

جھارکھنڈ کانگریس صدر رامیشور اراؤں کا کہنا ہے کہ ہریانہ، مہاراشٹر اسمبلی انتخابات کے علاوہ بہار کے ضمنی انتخابات کے نتیجہ نے ایک بار پھر بی جے پی کے کھوکھلے ڈیولپمنٹ کے دعووں کی ہوا نکال دی ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

جھارکھنڈ میں اس سال کے آخر میں اسمبلی انتخاب ہونا ہے اور بی جے پی نے ہریانہ میں دیے گئے نعرہ ’75 پار‘ کی طرز پر ’65 پار‘ کا نعرہ بھی دے رکھا ہے۔ لیکن ہریانہ میں جو کچھ بی جے پی کے ساتھ ہوا، یہ دیکھ کر جھارکھنڈ بی جے پی حواس باختہ ہے اور اسے خوف ہے کہ کہیں جھارکھنڈ میں بھی ’65 پار‘ کا نعرہ فیل نہ ہو جائے۔ ہریانہ کے ساتھ ساتھ مہاراشٹر میں بھی بی جے پی کی کارکردگی امید سے بہت زیادہ خراب رہی اور بی جے پی کو ’چھپڑ پھاڑ‘ سیٹ دینے والے بیشتر ایگزٹ پول بھی غلط ہی ثابت ہوئے، یہی وجہ ہے کہ جھارکھنڈ بی جے پی اب ڈری سہمی ہوئی نظر آ رہی ہے۔

دراصل جھارکھنڈ بی جے پی اپوزیشن کے کچھ لیڈروں کو پارٹی میں شامل کرانے کے بعد فتح کا خواب دیکھ رہی ہے۔ لیکن 24 اکتوبر کو ہریانہ و مہاراشٹر اسمبلی انتخابات کے نتائج کے علاوہ بہار جیسی ریاست میں ہوئے ضمنی انتخابات کا جو نتیجہ برآمد ہوا ہے، اس نے جھارکھنڈ بی جے پی کے پالیسی سازوں کی نیند اڑا دی ہے۔


ریاستی بی جے پی لیڈروں نے گزشتہ دنوں جو کچھ کہا، اس کے مطابق پارٹی نے ایک پالیسی کے تحت حوصلہ توڑنے کے لیے اپوزیشن پارٹیوں کے ایسے لیڈروں کو توڑنے کا منصوبہ بنایا تھا جو اپنی ایک شناخت رکھتے ہیں۔ بی جے پی کی یہ پالیسی کامیاب رہی اور جھارکھنڈ میں اپوزیشن کے کچھ لیڈران بی جے پی میں شامل بھی ہو گئے۔ اس سال لوک سبھا انتخاب کا جو نتیجہ برآمد ہوا تھا، اس کے بعد پرجوش ’کمل ٹیم‘ دیگر پارٹیوں کے مضبوط لیڈروں کی بی جے پی میں شمولیت سے خود کو ’بہت مضبوط‘ تصور کر رہی تھی۔ لیکن اب ماحول بہت بدلا ہوا نظر آ رہا ہے۔

ریاستی کانگریس صدر رامیشور اراؤں کا کہنا ہے کہ ’’ہریانہ، مہاراشٹر اسمبلی انتخاب اور بہار ضمنی انتخاب کے نتائج نے ایک بار پھر بی جے پی کے کھوکھلے ڈیولپمنٹ کے دعووں کی ہوا نکال دی ہے۔ اب بی جے پی کا بڑبولاپن ختم ہو جائے گا۔‘‘ انھوں نے مزید کہا کہ بی جے پی کے بڑے لیڈر مہاراشٹر میں 200 اور ہریانہ میں 75 پار کا دعویٰ کر رہے تھے، لیکن دو ریاستوں کے ووٹروں نے بی جے پی کی امیدوں کے مطابق اکثریت نہیں دی۔ دونوں ریاستوں کے انتخاب میں مقامی ایشوز حاوی رہے۔ انھوں نے کہا کہ جھارکھنڈ میں بھی ’65 پار‘ کا نعرہ کھوکھلا ثابت ہوگا۔


جھارکھنڈ کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے سینئر صحافی یوگیش کسلے نے کہا کہ ہریانہ کا انتخابی نتیجہ بی جے پی کو سبق دینے والا ہے۔ انھوں نے واضح لفظوں میں کہا کہ ’’بی جے پی کی پالیسی جھارکھنڈ میں پھر سے بڑی جیت درج کرنے کی ہے، اس لیے ہریانہ سے سبق لیتے ہوئے ایسے لوگوں کو ٹکٹ دینے سے پرہیز کرے گی جو جیتنے لائق نہیں ہوگا۔‘‘ انھوں نے یہ بھی کہا کہ اس نتیجہ سے واضح ہے کہ دیگر پارٹیوں سے آنے والے اراکین اسمبلی کو بھی بی جے پی ٹکٹ دینے میں کافی غور و خوض کرے گی۔

حالانکہ بی جے پی لیڈران اس سلسلے میں اپنی پریشانی چھپاتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ پارٹی ترجمان مشفقہ حسن کہتی ہیں کہ ’’ہریانہ میں پارٹی اپنی منزل تک نہیں پہنچی، یہ تجزیہ کا موضوع ہے اور پارٹی قیادت اس کا تجزیہ ضرور کرے گی۔ لیکن جھارکھنڈ کے حالات ہریانہ سے پوری طرح الگ ہیں۔‘‘ بی جے پی کے ایک لیڈر کا کہنا ہے کہ انتخاب کی تیاریوں کو لے کر بی جے پی زمینی سطح پر اپنی تیاریوں کو انجام دے رہی ہے۔ پارٹی ووٹنگ سنٹر کی سطح پر کام کر رہی ہے اور وزیر اعلیٰ رگھوور داس انتخاب کی تاریخ کے اعلان سے پہلے ہی زبردست تشہیری مہم میں مصروف ہیں۔ رگھوور کا رتھ اب تک ریاست کے نصف اسمبلی حلقوں کا دورہ کر چکا ہے۔


بہر حال، بی جے پی خیمہ اپوزیشن پارٹیوں کے سرکردہ لیڈروں کو پارٹی میں شامل کرا کر انتخاب سے پہلے ہی خود کو مضبوط حالت میں سمجھ کر پرجوش تھی، لیکن ہریانہ انتخاب کے نتیجوں نے بی جے پی کو ایک بار پھر بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 25 Oct 2019, 11:47 AM