کیوں بکھرتا جا رہا این ڈی اے کا کنبہ؟ 4 سال میں 8 پارٹیوں نے چھوڑ دیا ساتھ، 2 پارٹیوں کے تیور تلخ

اٹل بہاری واجپئی کے وقت جارج فرنانڈیز سبھی ایشوز پر لیڈروں سے رائے لیتے تھے اور میٹنگ بلا کر فوراً تنازعہ ختم کیا جاتا تھا، لیکن موجودہ حالات میں این ڈی اے کے اندر ایسا دیکھنے کو نہیں ملتا۔

<div class="paragraphs"><p>بی جے پی، تصویر آئی اے این ایس</p></div>

بی جے پی، تصویر آئی اے این ایس

user

قومی آوازبیورو

این ڈی اے میں شامل پارٹیاں اے آئی اے ڈی ایم کے (تمل ناڈو) اور جے جے پی (ہریانہ) کے رشتے ان دنوں بی جے پی سے بہت اچھے نہیں ہیں۔ دونوں ہی پارٹیوں نے این ڈی اے سے علیحدگی اختیار کرنے کی دھمکی دے رکھی ہے اور سیاسی گلیاروں میں باتیں گشت کر رہی ہیں کہ جلد ہی دونوں کی راہیں بی جے پی سے جدا ہو جائیں گی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بی جے پی انچارج بپلو دیو نے ہریانہ میں حکومت چلانے کا دعویٰ بھی کر دیا ہے جس سے این ڈے اے میں ٹوٹ کے اندیشے مزید بڑھ گئے ہیں۔

یہاں قابل ذکر ہے کہ 2019 ہریانہ اسمبلی انتخاب کے بعد جے جے پی اور بی جے پی کے درمیان اتحاد ہوا تھا۔ حال میں نئی پارلیمنٹ کے افتتاح میں جب این ڈی اے کی طرف سے ایک خط جاری کیا گیا تھا تو اس میں جے پی نڈا کے ساتھ دشینت چوٹالہ نے بھی دستخط کیے تھے۔ بی جے پی-جے جے پی اتحاد اگر ٹوٹتا ہے تو ہریانہ کی سیاست میں منوہر لال کھٹر حکومت کی مشکلات بڑھ سکتی ہیں۔ اتنا ہی نہیں گزشتہ چار سال میں جے جے پی نویں سیاسی پارٹی ہوگی جو این ڈی اے اتحاد سے باہر ہو جائے گی۔


2019 کے بعد این ڈی اے کے کئی نئے اور پرانے ساتھی بی جے پی کا ساتھ چھوڑ چکے ہیں۔ ان میں شیوسینا، جنتا دل یو اور شرومنی اکالی دل جیسی اہم پارٹیاں بھی شامل ہیں۔ ایسے وقت میں جب لوک سبھا انتخاب قریب ہیں اور اپوزیشن پارٹیاں اتحاد کی کوششیں کر رہی ہیں، این ڈی اے کو مضبوط کرنے کی کوششیں بھی سرکردہ بی جے پی لیڈران کے ذریعہ کی جا رہی ہے۔ لیکن جے جے پی اور اے آئی اے ڈی ایم کے نے جو تیور اختیار کر رکھے ہیں وہ این ڈی اے کو زوردار جھٹکا دے سکتا ہے۔

غور کرنے والی بات یہ ہے کہ 1998 میں این ڈی اے وجود میں آیا تھا اور تب سے اب تک 25 سال ہو چکے ہیں۔ اس درمیان این ڈی اے کا اسٹرکچر بہت بدل گیا ہے۔ 1998 میں این ڈی اے کی تشکیل سے ہی بی جے پی مرکز میں برسراقتدار ہوئی تھی۔ حالانکہ 13 ماہ بعد ہی حکومت گر گئی۔ بی جے پی نے این ڈی اے کو مزید مضبوط کیا اور 1999 میں 24 پارٹیوں کے تعاون سے این ڈی اے کی حکومت بنائی۔ اس وقت این ڈی اے میں ایشوز کو لے کر ’کامن منیمم پروگرام‘ بنایا گیا تھا۔ ساتھ ہی کسی بھی بڑے ایشو پر این ڈی اے میں شامل پارٹیوں کی میٹنگ بلائی جاتی تھی۔ اٹل بہاری واجپئی کی حکومت میں 24 پارٹیاں شریک کار تھیں اور سبھی مل جل کر بہت مضبوط دکھائی دیتے تھے۔ لیکن 2004 میں این ڈی اے کا کنبہ بکھر گیا اور اٹل بہاری واجپئی کی حکومت چلی گئی۔


پھر 10 سال بعد 2014 میں این ڈی اے حکومت بنی، لیکن بی جے پی کو تن تنہا اتنی سیٹیں مل گئی تھیں کہ این ڈی اے میں شامل دیگر پارٹیوں میں اتھل پتھل شروع ہو گئی۔ کئی پارٹیوں نے نظر انداز کیے جانے کا الزام لگاتے ہوئے این ڈی اے کو خیر باد کہہ دیا۔ شیوسینا اور جنتا دل یو جیسی پرانی پارٹیوں نے خود کو کمزور کرنے کا بھی الزام لگایا۔ 2019 کے بعد تو این ڈی اے میں جیسے بھگدڑ سی مچ گئی۔ پی ایم کے کو چھوڑ دیا جائے تو 1998 میں این ڈی اے میں شامل رہی ایک بھی پارٹی اب این ڈی اے کا حصہ نہیں ہے۔

این ڈی اے بکھرنے کا ایک بڑا سبب سبھی پارٹیوں میں کوآرڈنیشن کی کمی بتائی جاتی ہے۔ مودی حکومت بننے کے بعد سے ہی این ڈی اے میں کوآرڈنیشن کمیٹی بنانے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے، لیکن 9 سال گزر جانے کے بعد بھی ایسا نہیں ہو سکا ہے۔ این ڈی اے کا سب سے اہم کنوینر عہدہ اب بھی خالی ہے۔ جنتا دل یو کے مشیر کے سی تیاگی، جنھوں نے این ڈی اے کی تشکیل میں بڑا کردار نبھایا تھا، انھوں نے بھی اس اتحاد کے بکھرنے کے پیچھے کی وجہ کوآرڈنیشن کمیٹی کا نہ ہونا بتایا ہے۔ اٹل بہاری واجپئی کے وقت جارج فرنانڈیز سبھی ایشوز پر لیڈروں سے رائے لیتے تھے۔ کسی بھی تنازعہ پر میٹنگ بلاتے تھے اور فوراً تنازعہ ختم کیا جاتا تھا۔ لیکن موجودہ حالات میں این ڈی اے کے اندر ایسا دیکھنے کو نہیں ملتا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔