بلااجازت جامعہ میں پولس کا داخلہ ناقابل برداشت، ایف آئی آر ہوگی درج: وائس چانسلر

جامعہ کی وائس چانسلر نجمہ اختر نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ بغیر اجازت پولس جبراً جامعہ کیمپس میں گھسی جو ناقابل برداشت ہے۔ میں انسانی حقوق کے وزیر سے واقعہ کی اعلی سطحی جانچ کا مطالبہ کروں گی

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

یو این آئی

نئی دہلی: جامعہ ملیہ اسلامیہ کی وائس چانسلر پروفیسر نجمہ اختر نے کہا کہ اتوار کی رات کو پولس نے کیمپس میں گھس کر طلبہ کے ساتھ مارپیٹ اور عوامی املاک کو نقصان پہنچایا ،وہ اس سلسلے میں پولس کے خلاف معاملہ درج کرائیں گی۔ پروفیسر نجمہ اختر نے یہاں نامہ نگاروں سے بات چیت میں کہا کہ وہ انسانی حقوق کے وزیر سے اس واقعہ کی اعلی سطحی جانچ کا مطالبہ کریں گی۔انہوں نے کہاکہ جامعہ انتظامیہ سے بغیر اجازت لئے پولس زبردستی کیمپس میں گھسی ہے جسے ہم برداشت نہیں کریں گے۔


انہوں نے کہاکہ سوشل میڈیا میں ایک افواہ پھیلائی جارہی ہے کہ ایک بچے کی موت ہوگئی ہے جو سراسر بے بنیاد ہے۔انہوں نے کہا کہ اتوار کے واقعہ میں تقریباً 200افراد زخمی ہوئے ہیں جن میں بڑی تعداد میں جامعہ کے طلبہ ہیں۔جامعہ کے جو طلبہ زخمی ہوئے ہیں ان میں زیادہ تر بچے لائبریری میں پڑھائی کررہے تھے۔پروفیسر اختر نے میڈیا سے اپیل کی کہ وہ آس پاس کے واقعات کو جامعہ سے جوڑ کر نہ دیکھے اور نہ چلائیں ۔اس سے یونیورسٹی کی شبیہ خراب ہوتی ہے۔


وائس چانسلر نے کہا دھرنا ،مظاہرے کا اعلان اتوار کو طلبہ نے نہیں کیاتھا بلکہ آس پاس کے رہائشی علاقوں کے لوگوں نے کیاتھا۔وائس چانسلر کے مطابق یہ لوگ جب ریلی نکال رہے تھے تو جولینا میں پولس کے ساتھ ان کی جھڑپ ہوئی تب پولس نے ان کا پیچھا کیا اور پیچھا کرتے ہوئے یونیورسٹی اور لائبریری میں گھس گئی اور مارپیٹ اور توڑ پھوڑ شروع کردی۔


جامعہ کے مولانا ابوالکلام آزاد گیٹ پر پولس کی کارروائی اور شہریت ترمیمی قانون کے خلاف لوگ مظاہرہ کررہے ہیں۔وہیں کچھ طلبہ ہاسٹل خالی کرکے اپنے اپنے گھروں کےلئے نکل رہے ہیں۔گھرجانے والی ایک طالبہ نے بتایا کہ اتوار کی رات پولس نے ہاسٹل میں جس طرح بربریت سےکام لیا ہے اس سے ہم لوگ دہشت میں ہیں اور ہمارے گھر والے جلد از جلد واپس بلا رہے ہیں۔ایک دیگر طالبہ نے کہاکہ اتوار کی رات کا واقعہ بے حد خوفناک تھا۔پولس طلبہ کے ساتھ مجرموں کی طرح پیش آئی۔پولس نے طلبہ کو گندی گندی گالیاں دیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 16 Dec 2019, 1:58 PM