شاہین باغ: پولیس کے راستہ دوبارہ بند کرنے سے مذاکرات کار ناراض کہا ’سپریم کورٹ کو بتائیں گے‘

مذاکرات کاروں نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پولیس نے نوئیڈا-فرید آباد روڈ ان کے کہنے سے صبح کھول دیا تھا لیکن کہ کچھ دیر میں پھر بند کر دیا، اس بات کو سپریم کورٹ کو بتائیں گے

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

یو این آئی

نئی دہلی: سپریم کورٹ کی طرف سے مقرر کئے گئے مذاکرات کار سنجے ہیگڑے اور سادھنا رام چندرن جمعہ کو لگاتار تیسرے دن شاہین باغ کی مطاہرین سے بات چیت کرنے کے لئے پہنچے۔ بات چیت کے دوران مذاکرات اس بات پر ناراض ہوئے کہ سریتا وہار-کالندی کنج روڈ کو جب پولیس نے صبح کے وقت ٹریفک کے لئے کھول دیا تھا تو اسے دوبارہ کیوں بند کر دیا گیا۔

مظاہرین سے بات چیت کے دوران مذاکرات کاروں نے پوچھا ’’ایک روڈ آپنے بند کیا ہے تو دوسرا کس نے بند کیا ہے؟‘‘ سادھنا رام چندرن نے کہا، ’’ہم نے آج نوئیڈا سے دہلی آنے والے تمام راستوں کو بھی دیکھا۔ ہم نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ آیا کوئی دوسرا متبادل راستہ بھی ہے جسے کھولے جانے سے مسافروں کی مشکلات کم ہوں! اس دوران ہم نے دیکھا کہ نوئیڈا سے فرید آباد جانے والا راستہ بھی پولیس نے بند کر رکھا ہے جس سے شاہین باغ کا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔‘‘

انہوں نے کہا کہ پولیس نے نوئیڈا سے فرید آباد جانے والا راستہ ان کے کہنے سے صبح کھول دیا تھا لیکن معلوم چلا کہ کچھ دیر میں ہی پھر بند کر دیا گیا۔ مذاکرات کاروں نے راستہ کھول کر دوبارہ بند کرنے پر سخت برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ وہ اس بات کو سپریم کورٹ کو بتائیں گے۔

واضح رہے کہ جمعہ کے روز زیادہ ٹریفک کی وجہ سے 45 منٹ کے لئے سریتا وہار-کالندی کنج راستہ کھولا گیا تھا لیکن تقریباً 45 منٹ کے بعد اسے دوبارہ بند کر دیا گیا۔


قبل ازیں، مذاکرات کاروں نے شاہین باغ مظاہرین سے دل کا راستہ کھولنے کی اپیل کرتے ہوئے کہاکہ آپ راستہ کھولئے پھر دیکھئے کہ آپ کے لئے کتنے راستے کھلتے ہیں۔ انہوں نے اتفاق رائے سے مسئلہ کو حل کرنے کی اپیل کرتے ہوئے کہاکہ سپریم کورٹ چاہتا ہے کہ آپ کا احتجاج بھی جاری رہے اور راستہ بھی کھل جائے۔ سپریم کورٹ نے آپ کے حق کو تسلیم کیا ہے اس لئے آئین نے آپ کو اس کا حق آئین نے دیا ہے۔ سپریم کورٹ کے مذاکرات کار نے مظاہرین کے سیکورٹی کے خدشے پر دہلی پولیس نے تحریری یقین دہانی کرانے کو کہا۔

دریں اثنا، مظاہرین نے تحفظ کی بات کرتے ہوئے کہاکہ جب بریکیڈ ہٹاکردو بار گولی چلانے والے آسکتے ہیں تو راستہ کھل جانے پر کوئی بھی آسکتا ہے تو مظاہرین کے تحفظ کی ذمہ داری کس پر ہوگی۔ اس پر مذاکرات کار نے کہاکہ آپ کی حفاظت کی ذمہ داری سب پر ہے۔ آپ کی حفاظت کی جائے گی۔ انہوں نے دوسروں کی تکلیف کو محسوس کرنے کی اپیل کرتے ہوئے کہاکہ ہمارا جو درد ہے اس کا درد ہے اور جو اس کا درد ہے وہ ہمارا درد ہے۔ہمیں کسی کے لئے تکلیف کا باعث نہیں بننا چاہئے۔

آج بھی مظاہرین کو تین بجے سے مذاکرات کار کے آنے کا انتظار تھا لیکن سپریم کورٹ کے مقرر کردہ مذاکرات کار سپریم کورٹ کے ایڈووکیٹ سنجے ہیگڑے اور سادھنا رام چندر ن چھ شام کے بعد پہنچے۔


سپریم کورٹ کے مذاکرات کی بار بار سڑک کھولنے کی اپیل اور سپریم کورٹ نے مذاکرات مقرر کرنے اور راستہ کھولنے کی عرضی پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے مظاہرہ کرنے والی خواتین ثمینہ اور ملکہ خاں نے کہاکہ قومی شہریت (ترمیمی)قانون، این آر سی اور این پی آر کے خلا ف سپریم کورٹ میں 144سے زائد عرضی داخل ہیں جب کہ روڈ کھلوانے کے سلسلے میں محض چھ عرضی داخل کی گئی ہے۔ انہوں نے کہاکہ جس طرح سپریم کورٹ نے ان چھ عرضیوں پرجلدی کارروائی کی ہے اور مذاکرات کار مقرر کئے ہیں اسی طرح 144 عرضیوں پر جلد سماعت کرے گی اور مذاکرات کار مقرر کرے۔

قبل ازیں قومی شہریت (ترمیمی)قانون، این آر سی اور این پی آر کے خلاف شاہین باغ خاتون مظاہرین نے مذاکرات کے عمل کی ستائش کرتے ہوئے کہا کہ ہم اس عمل کا خیرمقدم کرتے ہیں لیکن جب تک حکومت اس سیاہ قانون کو واپس نہیں لیتی اس وقت تک مظاہرہ ختم کرنے کے حق میں نہیں ہیں۔

مظاہرین کا کہنا ہے کہ مذاکرات کار چاہتے ہیں کہ ہم گروپ میں بات کریں یا کمیٹی تشکیل دیکر بات کریں لیکن مظاہرین اس کے حق میں نہیں ہیں۔ مظاہرین کا کہنا ہے کہ جو بھی بات چیت ہو اوپن فرنٹ پر ہو اور اسٹیج پر ہو تاکہ سب کو معلوم ہوسکے کہ کیا بات چیت ہورہی ہے۔ اسی لئے مظاہرین میڈیا کی موجودگی کے حق میں ہیں اور مظاہرین نے میڈیا کو آنے دیا تھا۔ جب کہ مذاکرات کار میڈیا کی موجودگی کے خلاف ہیں۔ یہی وجہ ہے دونوں دن انہوں نے میڈیا کو وہاں سے ہٹا دیا تھا۔


انہوں نے کہاکہ شاہین باغ مظاہرہ کی خاص بات یہی ہے کہ اس کا کوئی لیڈر نہیں ہیں اور خواتین ہی سب کچھ سنبھال رہی ہیں اور مرد حضرات تعاون کرتے ہیں۔ اسٹیج کا سارا کام کاج خواتین ہی سنبھالتی ہیں۔ اس لئے کسی گروپ یا کمیٹی کے طور پر بات کرنے کا کوئی سوال نہیں ہے۔ انہوں نے کہاکہ مسئلہ صرف سڑک نہیں ہے بلکہ سڑک پر بیٹھی خواتین کا ہے۔ مذاکرات کار کو ہماری تکلیفوں کو سمجھنا ہوگا اور وہ سمجھ بھی رہے ہیں۔ انہوں نے ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ ہم نے صرف 150میٹر سڑک پربند کیا ہے جب کہ ساری سڑکوں کو پولیس نے بند کیا ہے۔

مذاکرات کار کے بار بار بند سڑک کا نام لئے جانے اور اس سے ہونے والی تکلیفوں کا ذکرکرنے پر مظاہرین کا احساس ہے کہ پہلے ہماری تکلیف ہے۔ سڑک بند ہونے سے ہونے والی تکلیف ایک دو گھنٹے کی ہے لیکن اس سیاہ قانون کو واپس نہیں لیاگیا تو ہماری پوری نسل تکلیف میں آجائے گی۔ انہوں نے یہ بھی کہاکہ سپریم کورٹ نے راستہ کھلوانے کے لئے مذاکرات تو بھیجے لیکن ہمارے مسئلے کے حل کے لئے انتظامیہ کو کوئی حکم نہیں دیا۔ مظاہرین نے کہاکہ مذاکرات کار نے ہمارے درد کا احساس کیا ہے اور ہمیں امید ہے کہ مذاکرات کار سپریم کورٹ کو ہماری تکلیفوں،پریشانیوں اور ہمارے احساسات سے آگاہ کریں گے۔

(عابد انور، یو این آئی)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 21 Feb 2020, 9:11 PM