اتر پردیش کے کئی شہروں میں فروخت ہو رہے ہیں عصمت دری کے ویڈیوز

اتر پردیش کے کئی شہروں میں عصمت دری کے فوٹیج و ویڈیوز بازار میں دستیاب ہیں اور یہ ویڈیوز انتہائی معمولی رقم پر دستیاب ہیں۔

تصویر بذریعہ الجزیرہ
تصویر بذریعہ الجزیرہ
user

قومی آوازبیورو

اتر پردیش کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ نے اقتدار سنبھالتے ہی ریاست میں ’رومیو مخالف سینا‘ بنا نے کا اعلان کیا تھا جس کا مقصد لڑکیوں کو پریشان کرنے والوں سے نمٹنے کی بات کہی گئی تھی۔ لیکن اس سینا نے عام محبت کرنے والوں کو ہی زیادہ پریشان کیا۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ یوگی آدتیہ ناتھ کے اتر پردیش میں عصمت دری کے ویڈیوز انتہائی معمولی رقم میں فروخت ہو رہے ہیں۔ انتہا تو یہ ہے کہ ان ویڈیوز میں عصمت دری کی شکار خاتون کی شناخت بھی کی جا سکتی ہے لیکن ریاست کی پولس کو اس کا علم بھی نہیں۔ جو ویڈیوز برسرعام فروخت ہو رہے ہیں ان میں عصمت دری کے وقت خاتون کی چیخ کی آواز بھی سنائی دیتی ہے اور یہ ویڈیوز محض 20سے 30روپے میں آسانی سے خریدی جاسکتی ہیں۔مقامی دکاندار ایسے ویڈیوز فروخت کرتے وقت بہت احتیاط برتتے ہیں اور وہ انجان لوگوں کو ویڈیوز فروخت نہیں کرتے۔

قطر کے الجزیرہ نیوز چینل پر شائع خبر کے مطابق میرٹھ میں مقامی لوگوں نے بتایا کہ عصمت دری کے ویڈیوز ’ریپ ویڈیوز ‘ کے نام سے بیچے جا رہے ہیں۔شہر سے پندرہ کلومیٹر کے فاصلہ پرواقع انچولی گاؤں میں ایک مقامی شخص ریپ ویڈیو خرید کر دکھانے کو تیار ہو گیا۔اس شخص نے اپنا نام نہیں بتایا لیکن یہ بتایا کہ ’’ویڈیو عام طور پر کھلے بازار میں بیچے جانے کے ارادے سے نہیں بنائے جاتے بلکہ ریپ متاثرہ کو بلیک میل کرنے کے لئے بنائے جاتے ہیں تاکہ تھانے جا کر ان کے خلاف کوئی کیس درج نہ کرپائے۔‘‘ اس شخص نے مزید بتایا کہ کبھی کبھی ویڈیو کلپ مجرم کے موبائل سے چرا لیا جاتا ہے اور بعد میں چوری کا فوٹیج مانگنے پر بیچ دیا جاتا ہے اور ایک مرتبہ ریپ کا ویڈیو ڈیلر کے پاس پہنچ گیا تو پھر وہاٹس ایپ کے ذریعہ دوسری جگہ تک پہنچ جاتا ہے۔


سہارنپور میں ایک شخص نے تسلیم کیا کہ اکثر دوسرے گاؤں سے ویڈیو خرید کر دیکھتا ہے اور اس کے لیپ ٹاپ میں ایسے ریپ ویڈیوز کا پورا ذخیرہ ہے۔صارفین کو جہاں ہر نئے ویڈیو کی اطلاع ہے تو وہیں مقامی پولس اس سب سے بے خبر ہے۔الجزیرہ کے مطابق جب اس نے سہارنپور رینج کے ایک سینئر پولس افسر جے کے شاہی سے رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ ان کو ایسی معلومات نہیں ہے اور نہ ہی انہیں یہ معلوم ہے کہ ریپ ویڈیو ہوتی کیا چیز ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’اگر انہیں یہ فراہم کی جائے تو وہ اس معاملہ میں سخت کاروائی کریں گے۔‘‘ میرٹھ رینج کے سینئر پولس افسر اجے آنند نے کہا کہ وہ ابھی اس عہدے پر نئے ہیں اس لئے انہیں ایسے ویڈیوز کے بارے میں کوئی معلومات نہیں ہے۔

الجزیرہ کے مطابق مظفر نگر سے بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ سنجیو بالیان نے کہا کہ حکومت خواتین کے تئیں حساس نہیں ہےاور اس کی وجہ سے ملک میں جنسی جرائم میں اضافہ ہو رہا ہے۔سنجیو نے کہا کہ ’’میں نے بھی اپنے حلقہ میں ایسے ویڈیوز بیچے جانے کے بارے میں سنا ہے اور پولس اس سماجی برائی کو روکنے کے لئے کوئی قدم نہیں اٹھا رہی ہے۔‘‘انہوں نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ریاست میں قانون کا راج نہیں ہے۔


الجزیرہ کا کہنا ہے کہ جو ویڈیوز اس نے دیکھے وہ دل دہلانے والے تھے۔ ایک نابالغ کی ویڈیو نے پوری طرح ہلا دیا اور دوسرے ویڈیو میں ایک خاتون مجرمین کے سامنے گڑگڑاتے ہوئے خود کشی کی بات کر رہی ہے۔وہیں ایک ویڈیو میں متاثرہ ریکارڈ نہ کرنے کی درخواست کر رہی ہے۔ اس پر دہلی ہائی کورٹ کی وکیل منگلا ورما نے کہا ’’خواتین سے عصمت دری کرنا اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنا ہے اور مجرم عصمت دری کی شوٹنگ کر کے فوٹیج کو دیگر افراد کے درمیان منتقل کر دیتا ہے۔‘‘

الجزیرہ کا کہنا ہے کہ اس کی تصدیق کرنا بہت مشکل ہے کہ یہ ویڈیو عصمت دری کے واقعہ کا اصل فوٹیج ہے یا نقل، لیکن ان کی بازار میں دستیابی سے یہ پتہ چلتا ہے کہ ملک میں جنسی حملے ہو رہے ہیں۔ برندا کرات کہتی ہیں کہ نہ صرف عصمت دری جیسے جرائم کئے جا رہے ہیں بلکہ ان کی تشہیر بھی کی جا رہی ہے۔ ایسے ویڈیوز کی بازار میں دستیابی ایک انتہائی تشویش کی بات ہے اور ریاست کی حکومت و پولس کو اس بے انتہا شرمناک جرم سے سختی سے نمٹنا چاہئے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔