ریلوے کی نجکاری کرنے کی کوشش میں ہے حکومت: اپوزیشن

چودھری نے کہا کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے سال 2014 میں بنارس میں اعلان کیا تھا کہ وہ ریلوے کی نجکاری نہیں ہونے دیں گے اور کم سے کم مودی کے وعدے کا تو احترام کیا جانا چاہیے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

یو این آئی

نئی دہلی: اپوزیشن نے حکومت پر ریلوے کی نجکاری کی کوشش کرنے کا الزام لگاتے ہوئے جمعرات کو کہا کہ ہماری کچھ سماجی ذمہ داریاں ہیں جن کو پورا کیا جانا چاہیے, جبکہ حزب اقتدار نے کہا کہ ریلوے ہندوستان کی ثقافتی قوم پرستی کا اظہار اور اقتصادی ترقی کی ریڑھ ہے اور آنے والے وقت میں اسے منافع کمانے کے قابل بنایا جائے گا۔

وزارت ریلوے سے متعلقہ مطالبات پر لوک سبھا میں بحث کا آغاز کرتے ہوئے کانگریس کے لیڈر ادھیر رنجن چودھری نے کہا کہ گزشتہ تین سال سے ریل بجٹ کو عام بجٹ میں ہی ضم کر دیا گیا ہے۔ اس سے اس کی چمک ماند پڑ گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بجٹ میں ریلوے پر 50 لاکھ کروڑ روپے خرچ کرنے کی بات کہی گئی ہے۔ حکومت کو امید ہے کہ پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت ریلوے کی املاک بیچ کر جو پیسہ آئے گا، اس سے یہ سرمایہ کاری کی جائے گی۔ لیکن، گزشتہ بجٹ میں خرچ کا جو وعدہ کیا گیا تھا وہ بھی اب تک مکمل نہیں کیا جا سکا ہے۔


چودھری نے کہا کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے سال 2014 میں بنارس میں اعلان کیا تھا کہ وہ ریلوے کی نجکاری نہیں ہونے دیں گے اور کم سے کم مودی کے وعدے کا تو احترام کیا جانا چاہیے۔

کانگریس لیڈر نے رائے بریلی اور چترنجن کی اکائیوں سمیت ریلوے کی سات مینوفیکچرنگ یونٹس کے کارپورائزیشن کی تجویز کی بھی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کی منشا پہلے کارپوریشن اور بعد میں نجکاری کرنے کی ہے۔ انہوں نے سوال کیا یہ تمام اکائیاں منافع کما رہی ہیں، پھر انہیں کیوں فروخت کیا جا رہا ہے ۔


انہوں نے کہا کہ مودی حکومت کے دور میں ریلوے کی حالت خراب ہوئی ہے۔ مالی سال 2019-20 میں اس کا آپریشن تناسب بڑھ کر 98.40 تک پہنچ گیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر 100 روپے کمانے کے لئے اس کو 98.40 روپے خرچ کرنے پڑ رہے ہیں۔ اس بجٹ میں اسے 96.20 رکھنے کی بات کہی گئی ہے، لیکن یہ نہیں بتایا گیا ہے کہ یہ کس طرح ممکن ہو پائے گا۔ گزشتہ مالی سال میں حکومت نے ریلوے کے لئے 12999 ہزار کروڑ روپے کی آمدنی کا ہدف رکھا تھا، لیکن حقیقت میں اس کی کمائی 6014 کروڑ روپے ہی رہی۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ مالی سال میں ریلوے کا منافعہ 7.8 فیصد گھٹا ہے۔ وقت پر ٹرینوں کے چلانے میں کمی آئی ہے۔ مالی سال 2018-19 میں محض 68.91 فیصد ٹرینیں ہی وقت پرچلیں جبکہ 17-18 میں یہ اعدادوشمار 71.55 فیصد اور 2016-17 میں 76 فیصد سے زیادہ رہے تھے۔


ادھیر رنجن چودھری حکومت پر وعدے پورے نہ کرنے کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ 2017-18 کے بجٹ میں اس نے نیا میٹرو ریل ایکٹ بنانے کی بات کہی تھی۔ اس نے تمام ریلوے کوچوں میں بائیو ٹوائلیٹ لگانے کی بات کہی تھی۔ ان دونوں پر اب تک عمل نہیں ہوا ہے۔ ساتھ ہی اس نے دوسرے ممالک کے ساتھ کئی مفاہمت ناموں پر دستخط کیے ہیں جن میں ٹالگو کوچ کے لئے کیے گئے معاہدہ کو چھوڑ کر کوئی دوسرا پروان نہیں چڑھ سکا۔ مال ڈھلائی کے لئے وقف کوریڈور بھی طے شدہ وقت پر مکمل نہیں ہو سکا ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت ریلوے کو کتنی اہمیت دیتی ہے اس کا اندازہ اسی بات سے لگتا ہے کہ اقتصادی سروے کے جلد- 2میں 278 صفحات ہیں جن میں ریلوے کی بات صرف دو صفحات میں سمیٹ دی گئی ہے۔

بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے سنیل کمار سنگھ نے کہا کہ کانگریس 1832 کے ریلوے کا موازنہ 1883 کی کانگریس سے کر رہی ہے اور وہ ریلوے کو اسی وقت میں بنائے رکھنا چاہتی ہے۔ لیکن مودی حکومت کے وقت کے ہندوستانی ریلوے نئے ہندوستان میں ہماری ثقافتی قوم پرستی کا اظہار ہے جس نے نیشنل ڈیزاسٹر کے وقت اہم کردار ادا کیا ہے۔ ہم نے ریلوے کو ملک کی ترقی کے انجن کے طور پر تسلیم کیا ہے جو گاؤں، دیہات، قصبوں میں رہنے والوں کے خوابوں کو شرمندہ تعبیر کرتا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 11 Jul 2019, 7:10 PM