بے روزگاری ملک کے لئے سب سے بڑا چیلنج

مودی جی اور ان کی پارٹی نے2014 میں انتخابی مہم کے دوران ہر سال دو کروڑ نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

عبیداللہ ناصر

وطن عزیز ان دنوں گونا گوں مسائل سے دو چار ہے ملک کاسماجی اور معاشی تانا بانا الجھتا جا رہا ہے سماج کا ہر طبقہ بھلے ہی اوپری طور سے اظہار نہ کرے لیکن وہ اندر ہی اندر ایک بے یقینی، ایک خلش اورایک الجھن کا شکار ہے چار برس قبل جن تمنّاؤں اور خوابوں کے سہارے مودی جی بر سر اقتدار آئے تھے وہ سب ٹوٹ کے بکھر چکے ہیں ملک کی نصف سے زیادہ آبادی خاص کر دلت اور مسلمان ایک عجب قسم کی احساس بیگانگی میں مبتلا ہو گئے ہیں ہر روز ان کے سامنے کوئی نہ کوئی مسئلہ کوئی نہ کوئی مشکل کھڑی کر دی جاتی ہے ، سنگھیوں کا یہ چھوٹا سا ٹولہ بھلے ہی ایسی باتوں پر بغلیں بجاتا ہو لیکن سماج کا سنجیدہ اور فکر مند طبقہ دیکھ رہا ہے کہ ایسے غیر ذمہ دارانہ اور احمقانہ حرکتوں سے مستقبل قریب میں ملک کے لیے بڑے مسائل کھڑے ہو سکتے ہیں ۔

سماجی ماحول کی اس پراگندگی کے ساتھ ساتھ جو سب سے بڑا مسئلہ ملک کے سامنے کھڑا ہو گیا ہے وہ ہے نوجوانوں کی بڑھتی ہوئی بیروزگاری 2014 میں انتخابی مہم کے دوران مودی جی اور ان کی پارٹی نے ہر سال دو کروڑ نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا وہ وعدہ کتنا پورا ہوا ، نہ صرف عوام خودمحسوس کر رہی ہے بلکہ سرکاری اعداد و شمار بھی چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ جتنی مختصر نوکریاں ملی ہیں اس سے کئی گنا زیادہ نوکریاں ختم ہو چکی ہیں اور دیگر طریقوں سے بھی روزگار سے محروم کیے جا چکے ہیں۔ ایک نیوز چینل کی رپورٹ کے مطابق جو اس نے لیبر بیورو سے حاصل کی ہے اس وقت ملک میں تقریباً 12 کروڑ نوجوان بیروزگار ہیں جو کل آبادی کا گیارہ فیصد ہے اس رپورٹ کے مطابق روز ساڑھے پانچ سو لوگ روزگار سے محروم ہو رہے ہیں جس سے ہندستان دنیا میں سب سے زیادہ بیروزگاروں کا ملک بن گیا ہے۔گزشتہ دنوں ایک ٹی وی چینل کو انٹر ویو دیتے ہوئے مودی جی نے کہا تھا کہ پکوڑےبیچ کر بھی لوگ دو سو روپیہ یومیہ پیدا کر لیتے ہیں کیا یہ روزگار نہیں ہے ، ملک کے وزیر اعظم کے منھ سے یہ بات سن کر نہ ہنسی آتی ہے اور نہ ہی رونا، بس ان سے یہ سوال پوچھنے کا دل چاہتا ہے کہ کیا کوئی نوجوان صرف پکوڑے بیچنے کے لئے اپنی نصف زندگی کتابوں کے پڑھنے میں صَرف کر دیتا ہے، کیا والدین اپنی ساری خوشیاں، آرزؤں اورتمنا ؤں کا گلا اس لئے گھونٹ دیتا ہے کہ وہ اپنی اولادسے پکوڑے تلوائے، مودی جی کا یہ بیان نہ صرف ان نوجوانوں کی امنگوں اور تمنّاؤں کی توہین ہےبلکہ ان والدین کی قربانیوں کا بھی مذاق اڑانا ہے۔

سابق وزیر مالیات پی چدمبرم نے اپنے ایک مضمون میں بہت واجب سوال اٹھایا تھا کہ اس پیمانے سے تو بھیک مانگ کر روزانہ دو تین سو روپیہ کما لینے والا فقیر بھی با روزگار کہا جائےگا ۔ان کے اس مضمون کا بی جے پی صدر امت شاہ نے راجیہ سبھا میں اپنی پہلی تقریر میں خوب مذاق اڑایا تھا اور اسے چُھوٹا کام کرنے والوں کی توہین سے تعبیرکیا تھا لیکن مودی جی اور شاہ جی دونوں کو سمجھ لینا چاہیےکہ ملک کے معاشی مسائل لفاظی اور الزام تراشی سے حل نہیں ہو سکتے ،خاص کر بیروزگاری کا مسئلہ حل کرنے کے لئے زمینی سطح پرٹھوس کام کرنا ضروری ہے ۔

اس کے بر خلاف حکومت کا ہر قدم بے روزگاری بڑھانے والا ہی ہےچھوٹے،بڑے کاروبار ٹھپ ہو چکےہیں ، سب سے زیادہ روزگار فراہم کرنے والا شعبہ تعمیرات پوری طرح تباہ ہو چکا ہے سب سے کاری ضرب دیہی زمرہ پر لگائی جا رہی ہے۔ ایک طرف تو کسان اپنی پیداوار کی مناسب قیمت نہ ملنے سے پریشان ہیں دوسری طرف حکومت اپنی آستھا یا اعتقاد کے چلتے ان کے مویشیوں کی فروخت پر پے در پے پابندیاں لگاتی چلی جا رہی ہے یہ مویشی کسانوں کے لئے بینکوں کے اے ٹی ایم کی طرح ہوتے ہیں جنہیں کسی بھی وقت فروخت کر کے وہ اپنی ضروریات پوری کر لیتے تھے ، فروخت نہ ہو پانے کی وجہ سے ان کسانوں کے لئے جانوروں کو رکھنا اور ان کے چارے پانی کا انتظام کرنا ایک بڑا معاشی بوجھ بن گیا ہے مجبوراً وہ انھیں کھلا چھوڑ دیتےہیں، جس کے سبب آزاد گھوم رہے جانور ان کسانوں کی فصلوں کو تباہ و بربادکر رہے ہیں۔ کسانوں کے لئے مویشی پروری کاشتکاری کے بعد آمدنی کا دوسرا خاص ذریعہ ہوتا ہے جس پر حکومت نے اپنی آستھا کے چلتے کاری ضرب لگا دیا ہے۔ سونے پر سہاگہ اتر پردیش کی یوگی حکومت نے ایک فرمان جاری کر کے گاؤں، دیہات کی بازاروں میں بکرے کا گوشت فروخت کرنے پر پابندی لگا دی ہے یعنی اب اپنے بیکار بیل ،بچھڑے فروخت نہ کر پانے والا ہندو کسان اپنے بکرے، بکری بھی نہیں بیچ سکےگا اور نہ مسلم بکر قصاب ان کا گوشت فروخت کر کے اپنے بچوں کا پیٹ پال سکےگا۔ادھرتعمیراتی شعبے کے پورے طور سے بیٹھ جانے کی وجہ سے کسان اپنی زمین بھی فروخت نہیں کر پا رہا ہے۔صاف ظاہر ہے کہ حکومت کارپوریٹ سیکٹر کو بڑھاوا دینا چاہتی ہے جس کے لئے پہلے ان چھوٹے، موٹے کاروباریوں کو ختم کرنا ضروری ہے۔

حکومت نے آج تک کسی بڑےمذبح خانےکے خلاف قدم نہیں اٹھایا یعنی اس کی کوشش ڈبہ بند گوشت کی فروخت کو فروغ دینا ہے جس کے کاروبار پر کارپوریٹ سیکٹر کی اجارہ داری ہوگی ، مذبح خانے کے لئے جانوروں کی خریداری بھی کسان اپنی ضرورت یا اپنی مرضی سے نہیں بلکہ دلالوں کے رحم و کرم کے حساب سے کرپا ئےگا۔

بڑھتی بیروزگاری ملک کے سماجی مسائل میں اضافہ ہی کرےگی ، بیروزگار نوجوانوں کودھرم اور راشٹرواد کی افیم پلاکر سنگھ پریوار اپنی مطلب برآری کر سکتا ہے،بجرنگ دل میں پچیس لاکھ نوجوانوں کی بھرتی کا ارادہ خالی از علت تو نہیں ؟ ادھر مسلم نوجوانوں میں بھی کٹرپسندی اور بنیاد پرستی پنپ سکتی ہے ، یہ دونوں ملک کے سماجی ماحول کے لئے زہر ہلاہل ثابت ہوں گے اگر یہ سب نہ بھی ہوا تو ہر طرف سے روزگار کے دروازہ بند دیکھ کر نوجوان دوسروں کے دروازے توڑنے یعنی سماج مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہوسکتے ہیں ۔

ملک کا سماجی اور معاشی ماحول درست کرنے کی جانب حکومت کو فوری توجہ دینی چاہئے الیکشن میں ہار جیت کا سلسلہ تو جمہوریت میں چلتا ہی رہتا ہے لیکن اگر سماجی تانا بانا بکھر گیا ، یا بیروزگار نوجوان غلط راستوں پر چل پڑ ا تو ملک تباہ ہو جاےگا ۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔