جموں و کشمیر: کارگل اور دراس میں دَفعہ 370 ہٹائے جانے کی مخالفت شروع

کارگل اور دراس میں بھی دفعہ 370 ہٹائے جانے کی مخالفت شروع ہو گئی ہے۔ یہاں جوائنٹ ایکشن کمیٹی نے دو دن کی ہڑتال کا اعلان کیا ہے جسے دراس کی بی جے پی یونٹ نے بھی حمایت دینے کا اعلان کیا ہے۔

جموں و کشمیر میں دس ہزار اضافی سکیورٹی اہلکار تعینات
جموں و کشمیر میں دس ہزار اضافی سکیورٹی اہلکار تعینات
user

ایشلن میتھیو

دراس کے مقامی باشندوں اور لیڈروں میں بھی دفعہ 370 اور 35 اے ہٹائے جانے کو لے کر ناراضگی ہے۔ ساتھ ہی وہ نئے بنے مرکز کے ماتحت ریاست لداخ کے ساتھ دراس اور کارگل کو ملائے جانے کو لے کر بھی خوش نہیں ہیں۔ اس سلسلے میں کارگل جوائنٹ ایکشن کمیٹی نے بدھ اور جمعرات کو کارگل میں دو روزہ احتجاجی مظاہرہ اور بند کا اعلان کیا ہے۔

مودی حکومت کے فیصلے کے خلاف بدھ کے روز ہڑتال کو دراس، کارگل، سانکو اور کارگل ضلع کے دوسرے علاقوں میں زبردست حمایت ملی۔ اس جوائنٹ ایکشن کمیٹی میں سیاسی لیڈروں کے ساتھ کچھ مذہبی لیڈر بھی ہیں۔ حالانکہ بی جے پی کی کارگل یونٹ نے اس بند کی حمایت نہیں کی، لیکن دراس کی بی جے پی یونٹ اس بند کی حمایت میں کھل کر سامنے آئی ہے۔


دراس میں بی جے پی لیڈر بلال احمد کا کہنا ہے کہ ’’ہم لداخ کا حصہ نہیں بننا چاہتے۔ حکومت یا تو کارگل کو الگ مرکز کے ماتحت ریاست بنائے یا پھر ہمیں جموں و کشمیر کے ساتھ رہنے دے۔ جموں و کشمیر سے ہمارے کافی رشتے ہیں جب کہ لداخ سے ہمارا کوئی رشتہ نہیں ہے۔ وہاں کے اور ہمارے رسم و رواج، رہن سہن اور کھانے پینے میں بھی بہت فرق ہے۔ ہماری فیملی کی بہت سی خواتین کی شادی کشمیر میں ہوئی ہے۔ کارگل یوں بھی کشمیر کے نزدیک ہے۔‘‘

دوسری طرف لداخ آٹونومس ہل ڈیولپمنٹ کاؤنسل کے غلام نقوی کہتے ہیں کہ ’’ہمارا صرف ایک ہی مطالبہ ہے اور وہ یہ کہ ہم لداخ کا حصہ نہیں بننا چاہتے۔ سیاسی پارٹی سماج اور ریاست میں سے ہی آتے ہیں، اگر ریاست کا ہی احساس نہیں ہوگا تو پھر سیاسی پارٹی کا بھی کیا کرنا؟ ہمارے لیڈر دفعہ 370 ہٹائے جانے کے بعد سے ہی نظر بند ہیں۔ ہم آسانی سے پیچھے ہٹنے والے لوگ نہیں ہیں۔ ہم مرنے کے لیے تیار ہیں۔‘‘ غلام نقوی نیشنل کانفرنس کے لیڈر اور لداخ میں کونسلر ہیں۔


نقوی نے انصاف کے لیے ملک کے قانون کے تحت اس معاملے میں لڑائی کا اعلان کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’’ہم کسی بھی مرکز کے ماتحت ریاست کا حصہ ہونے سے انکار کر رہے ہیں۔ کیا کوئی حکومت اس طرح قانون بدلتی ہے۔ لوگوں کو گھروں میں بند کر انھوں نے ایسا کیا ہے۔‘‘

بلال احمد بھی بی جے پی لیڈر ہونے کے باوجود 35 اے ہٹائے جانے کے مودی حکومت کے فیصلے کے خلاف ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ 35 اے ہٹا کر حکومت نے بہت بڑی غلطی کی ہے۔ انھیں ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔ انھوں نے کہا کہ ’’جس طرح سے لیڈروں کو نظر بند کیا گیا ہے وہ شرمناک ہے۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا۔ انھوں نے طاقت کے زور پر ایسا کیا ہے۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 29 Aug 2019, 9:10 AM