بی بی سی ڈاکیومنٹری تنازعہ: تنقید کو لے کر اس قدر عدم برداشت!... (انورادھا رمن کا مضمون)

حکومت نے ایمرجنسی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے گجرات فسادات پر بنی بی بی سی کی ڈاکومنٹری پر روک لگا دی ہے، لیکن کوئی تو بتائے کہ اسے دکھانے سے آخر کار کس طرح کی ایمرجنسی والی حالت آ جاتی۔

<div class="paragraphs"><p>تصویر&nbsp;GettyImages</p></div>

تصویرGettyImages

user

قومی آوازبیورو

مین اسٹریم میڈیا میں حکومت کی تنقید سے کیا ہوتا ہے، یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں۔ لیکن ڈیجیٹل اور بین الاقوامی میڈیا میں بھی اپنی تنقید کو لے کر حکومت کس قدر عدم برداشت والا رویہ رکھ سکتی ہے، اس کے ثبوتوں کی کمی نہیں۔ بین الاقوامی انڈیکسز میں جب بھی ہندوستان کی حالت دگرگوں دکھائی جاتی ہے تو اس کی بھویں چڑھ جاتی ہیں۔ 2022 میں پریس کی آزادی کے عالمی انڈیکس میں جب ہندوستان کو 150واں مقام دیا گیا تو حکومت نے باقاعدہ ایک کمیٹی بنا دی جو اس انڈیکس اور اسے تیار کرنے کے طریقے پر سوال اٹھائے اور ان کے علاوہ پریس کی آزادی کی پیمائش کا ایک ’ہندوستانی‘ انڈیکس بھی تیار کرے۔

اس مشقت سے حاصل کچھ بھی نہیں ہوا اور یہ کمیٹی پیرس واقع ’رپورٹرس وِداؤٹ بورڈرس‘ کے تیار انڈیکس میں خامی نہیں نکال سکی۔ مشہور و معروف صحافی پی سائی ناتھ نے ان 52 میڈیا سے متعلق قوانین کی شناخت کی جن کی آڑ میں حکومت صحافیوں کو ڈراتی دھمکاتی ہے۔


حکومت گزشتہ ماہ بی بی سی ڈاکیومنٹری ’دی مودی کویشچن‘ کے آن لائن شیئر کرنے پر پابندی لگائی ہے۔ آئی ٹی ایکٹ کے اصول 16 کے تحت جوڑے گئے متنازعہ التزامات کی بنیاد پر حکومت نے ایسا کیا جو حکومت کو ایمرجنسی اختیارات دیتے ہیں کہ وہ جس مواد کو مناسب سمجھے، عوام تک پہنچائے جانے سے روک دے۔

دی مودی کویشچن، بی بی سی-2 پر نشر کیا گیا تھا جس نے ڈونالڈ ٹرمپ، ولادمیر پوتن، شی جن پنگ اور ترکی کے صدر ایردوآن سمیت مختلف لیڈروں کے گزرے دنوں کی پروفائنل نشر کیے ہیں۔ اس ڈاکیومنٹری میں گجرات کے اُس وقت کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی کو 2002 کے قتل عام کو نہ روک پانے کے لیے ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے اور الزام لگایا گیا ہے کہ فسادیوں کی گجرات پولیس کے ساتھ ملی بھگت تھی۔


59 منٹ کی ڈاکیومنٹری برطانوی دفتر خارجہ کی ایک غیر شائع رپورٹ پر مبنی ہے۔ اس میں برطانوی حکومت اور سابق برطانوی سکریٹری جیک اسٹرا سمیت مختلف مغربی سفارتکاروں کے ان صفحات کو بھی ظاہر کیا گیا ہے جن میں 2002 کے دوران مودی کے رویہ کی تنقید کی گئی تھی۔ بی بی سی نے فوٹیج نے نشر کیے جو مبینہ طور پر انٹرنیٹ سے ہٹا دیئے گئے ہیں۔ حالانکہ ڈاکیومنٹری میں بی جے پی حامیوں اور سابق اراکین پارلیمنٹ کے انٹرویو بھی ہیں جنھوں نے مودی کا دفاع کیا اور انھیں ایس آئی ٹی کے ساتھ ساتھ سپریم کورٹ سے ملی کلین چٹ کی بات کی۔

سوال اٹھتا ہے کہ کیا اس ڈاکیومنٹری کے معاملے میں ’ایمرجنسی‘ اختیارات کا استعمال کرنا درست ہے؟ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ کیا حکومت کو ایک ایسے شخص کی حفاظت کے لیے قدم اٹھانا چاہیے تھا جو ہندوتوا کا خود اعلانیہ علمبردار ہے؟ ڈاکیومنٹری کا فوکس وزیر اعلیٰ مودی پر کم اور ہندوتوا کے سیاسی فلسفہ اور مسلمانوں کے تئیں اس کے نظریہ پر زیادہ ہے۔ لیکن سرکاری ترجمانوں نے الزام لگایا کہ ڈاکیومنٹری نے ہندوستان کی شبیہ کو مندمل کیا ہے اور یہ ملک کی سپریم کورٹ کو بدنام کرنے کے برابر ہے۔ وزارت خارجہ نے اسے نوآبادیاتی ذہنیت سے بنایا گیا پروپیگنڈہ قرار دیا ہے۔


یہ افسوسناک ہی ہے، کیونکہ ملک میں بولنے کی آزادی کو پابند کرنے کے قانون انگریزوں نے ہی بنائے تھے جنھیں کم و بیش آزاد ہندوستان کی مختلف حکومتوں نے (بی جے پی سمیت) بنائے رکھا۔

--

اب بات ان اصولوں کی جو آئی ٹی ایکٹ کو نافذ کرنے کے لیے جوڑے گئے اور جو حکومتوں کو اظہارِ رائے کی آزادی کو روکنے کا حق دیتے ہیں۔ آئی ٹی ایکٹ 2021 کا اصول 16، ’ایمرجنسی‘ کے معاملے میں اطلاعات کے نشریہ کو روکنے سے متعلق ہے۔ آخر وہ کون سی ایمرجنسی حالت تھی جس نے حکومت کو اتنا بڑا قدم اٹھانے کے لیے راغب کیا؟ کیا اس بارے میں کوئی خفیہ جانکاری تھی؟ جواب کسی کے پاس نہیں، لیکن لوگوں کو یہی ماننا ہوگا کہ اس ڈاکیومنٹری کی وجہ سے ملک میں ’ایمرجنسی جیسی حالت‘ بن جاتی!


اصولوں میں دو سال پہلے تبدیلی کی گئی تھی اور تب کئی آن لائن نیوز چینلز نے انھیں عدالت میں چیلنج پیش کیا تھا۔ اصول کہتا ہے: ’مجاز افسر، ایمرجنسی حالت کے کسی بھی معاملے میں جس میں تاخیر قبول نہ ہو، متعلقہ مواد کی جانچ کرے گا اور سوچے گا کہ کیا اسے یا اس کے کسی حصہ کو روکنا ضروری یا وقت کے موافق ہے۔ اس کے بعد وہ تحریری شکل میں اپنی سفارش وزارت اطلاعات و نشریات کے سکریٹری کو بھیجے گا۔‘ قانون کی ذیلی دفعہ 2 کہتی ہے کہ اگر سکریٹری اس بات سے مطمئن ہو جاتا ہے کہ کسی مواد یا اس کے کسی حصہ پر روک لگائی جانی چاہیے تو وہ متعلقہ فریق کو اپنی بات رکھنے کا موقع دیئے بغیر روک کا حکم دے سکتا ہے۔

انٹرنیٹ فریڈم فاؤنڈیشن کے مطابق ’آئی ٹی اصول-2021، جس کا جواز متنازعہ ہے، ہندوستان میں لاکھوں انٹرنیٹ صارفین کے لیے بولنے اور اظہارِ رائے کی آزادی اور پرائیویسی کے بنیادی حقوق کو کمزور کرتا ہے‘۔ دلچسپ ہے کہ ان اصولوں پر مدراس ہائی کورٹ اور بامبے ہائی کورٹ نے روک لگا دی تھی جسے سپریم کورٹ نے پلٹ دیا۔ یعنی حکومت کو انھیں نافذ کرنے کا حق مل گیا۔


مختلف عدالتوں نے وقتاً فوقتاً بولنے کی آزادی کے حق میں رائے دی ہے۔ چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ نے 2000 اور 2013 کے دوران بامبے ہائی کورٹ کے جج رہتے ہوئے گجرات فسادات پر بنی فلم ’چاند بجھ گیا‘ پر پابندی ہٹا دی تھی۔ اس فلم کا اہم کردار کافی حد تک گجرات کے اُس وقت کے وزیر اعلیٰ جیسا نظر آتا ہے۔ جسٹس چندرچوڑ نے سی بی ایف سی کے اعتراضات کو خارج کرتے ہوئے کہا تھا: ’’ایک جمہوری سماج میں ہر شہری کو بولنے کے حق کے ساتھ ساتھ جاننے کا بھی حق ہے... ایک جمہوری سماج میں سماجی تانے بانے کے لیے اس سے زیادہ تباہناک کچھ بھی نہیں ہو سکتا کہ جو حکومت کرتے ہیں، وہ لوگوں تک جانکاری کو پہنچنے سے روکیں۔‘‘

بی بی سی ڈاکیومنٹری پر ’پابندی‘ کی مخالفت کرنے کے لیے ’دی ہندو‘ کے سابق مدیر این رام، رکن پارلیمنٹ مہوا موئترا اور وکیل پرشانت بھوشن نے حال ہی میں مشترکہ طور سے داخل ایک عرضی میں جسٹس چندرچوڑ کے تب کے تبصرہ کی یاد دلائی۔ حکومت کی کارروائی کو منمانا اور غیر آئینی بتاتے ہوئے عرضی میں دلیل دی گئی ہے کہ آئین کی دفعہ 19(1) بولنے اور اظہارِ رائے کی آزادی کے حق کی جو گارنٹی دیتا ہے، اس میں ’اطلاع حاصل کرنے اور نشر کرنے کا حق‘ شامل ہے۔ عرضی میں کہا گیا ہے، حکومت یا اس کی پالیسیوں کی تنقید کرنا ملک کی سالمیت و اتحاد کی خلاف ورزی نہیں ہے۔

--


کیا میڈیا کو اس ڈاکیومنٹری کو ٹوئٹ کرنے یا اس کے ذکر سے روکنے والا کوئی آفیشیل حکم ہے؟ یہ واضح نہیں ہے کیونکہ بی بی سی کی ڈاکیومنٹری کو ہٹانے کا حکم منظر عام پر نہیں لایا گیا ہے، جبکہ دفعہ 32 کے تحت کسی بھی آئینی راحت کے لیے ایک تحریری حکم ہونا چاہیے۔

حکومت کے ذریعہ لوک سبھا میں دی گئی جانکاری کے مطابق ٹوئٹر کو کسی مواد کو بلاک کرنے کے احکامات کی تعداد 2014 میں صرف 8 تھی جب مرکز میں نریندر مودی کی حکومت آئی اور یہ بڑھ کر 2022 کے پہلے چھ ماہ میں 1122 ہو گئی۔ 2022 کے دوران بلاک کیے گئے ٹوئٹر یو آر ایل کی تعداد 2021 کے مقابلے میں 20 فیصد زیادہ رہی۔


2021 کے مقابلے میں 2022 کے دوران سوشل اور ڈیجیٹل میڈیا مواد (ٹوئٹر کے علاوہ) کو بلاک کرنے کی ہدایات کی تعداد میں 3.5 فیصد کا اضافہ ہوا۔ اطلاعات کے حقوق کے تحت مانگی گئی جانکاری سے پتہ چلا ہے کہ حکومت نے نئے آئی ٹی ایکٹ، 2021 کو لوک سبھا میں پیش نہیں کیا ہے، نہ ہی لوک سبھا اور راجیہ سبھا کی آئینی کمیٹیوں نے ان اصولوں کی جانچ کی ہے۔ آخر یہ کیسا گڑبڑ جھالا ہے؟

(مضمون نگار انورادھا رمن کا یہ مضمون ہندی ہفتہ ’سنڈے نوجیون’ سے لیا گیا ہے)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔