گلوبل ہنگر انڈیکس پر مرکزی وزیر اسمرتی ایرانی کے بیان کو لےکر ہنگامہ

مرکزی وزیر اسمرتی ایرانی  نے کہا کہ جی ایچ آئی کے مطابق پاکستان بھارت سے بہتر کام کر رہا ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے؟

<div class="paragraphs"><p>فائل تصویر آئی اے این ایس</p></div>

فائل تصویر آئی اے این ایس

user

قومی آوازبیورو

حال ہی میں 'گلوبل ہنگر انڈیکس' (جی ایچ آئی )جاری کیا گیا۔ جی ایچ آئی  میں 125 ممالک کی فہرست میں ہندوستان کو 111 ویں مقام پر رکھا گیا ہے۔ دنیا کی پانچویں بڑی معیشت والے ملک کے لیے اس فہرست میں اتنا نیچے آنا قدرے شرمناک ہے۔ تاہم، گی ایچ آئی کی اس رپور ٹ کے بعد تنازعہ شروع ہو  گیا۔ مرکزی وزیر اسمرتی ایرانی کے بیان پر سب سے بڑا تنازعہ کھڑا ہو گیا ہے۔

دراصل، ایک پروگرام میں مرکزی وزیر ایرانی نے کہا کہ بہت سے لوگوں نے کہا ہے کہ گلوبل ہنگر انڈیکس مضحکہ خیز ہے۔ وہ اس انڈیکس کو کیسے بناتے ہیں؟ 140 کروڑ  افراد  والے ملک میں تین ہزار لوگوں کو فون آتا ہے اور پوچھا جاتا ہے کہ کیا آپ بھوکے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ جی ایچ آئی کے مطابق پاکستان بھارت سے بہتر کام کر رہا ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے؟


گلوبل ہنگر انڈیکس میں ہندوستان کو 111 ویں نمبر پر رکھا گیا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہندوستان میں بھوک کا ایک سنگین مسئلہ ہے۔ اس فہرست میں پاکستان 102ویں، بنگلہ دیش 81ویں، نیپال 69ویں اور سری لنکا 60ویں نمبر پر ہے۔ مجموعی طور پر ہندوستان کے تمام پڑوسی ممالک نے اس سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ ایسے میں اب سوال یہ اٹھ رہا ہے کہ گلوبل ہنگر انڈیکس کیا ہے اور گلوبل ہنگر انڈیکس کیسے تیار کیا جاتا ہے؟

گلوبل ہنگر انڈیکس(جی ایچ آئی) کی ویب سائٹ کے مطابق، جی ایچ آئی ایک ایسا ٹول ہے جسے عالمی، علاقائی اور قومی سطح پر بھوک کی پیمائش اور ٹریک کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ آسان زبان میں اس کے ذریعے معلوم ہوتا ہے کہ کتنی آبادی بھوکی ہے اور اس میں غذائیت کی کیا حیثیت ہے۔نیوز پورٹل ’اے بی پی‘ پر شائع خبر کے مطابوجی اچی آئی نے انہیں یہ بھی بتایا ہے کہ بھوک سے نمٹنے میں کن چیلنجوں کا سامنا ہے۔


اس سے یہ جاننے میں بھی مدد ملتی ہے کہ کن علاقوں میں فاقہ کشی کی صورتحال ہے اور ہم دو علاقوں کے درمیان بھوکی آبادی کا موازنہ کرنے کے لیے ڈیٹا بھی حاصل کر سکتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ یہ دنیا کی توجہ ان جگہوں کی طرف مبذول کرانے کا بھی کام کرتا ہے جہاں بھوک اور غذائیت کی کمی کا مسئلہ سب سے زیادہ ہے۔

اب سب سے بڑا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ انڈیکس کیسے تیار ہوتا ہے؟ مرکزی وزیر اسمرتی ایرانی نے بھی جی ایچ آئی کی تیاری کے طریقہ کار پر سوال اٹھائے ہیں۔ جی ایچ آئی کی ریلیز کے بعد ہر سال کہا جاتا ہے کہ اس کا ڈیٹا درست نہیں ہے، کیونکہ اسے کچھ منتخب لوگوں سے بات چیت کی بنیاد پر تیار کیا گیا ہے۔ اس لئے اس کے تیار کرنے کے عمل کو جاننے کی ضرورت ہے۔


ہر ملک کے جی ایچ آئی اسکور کا حساب ایک فارمولے کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ یہ چار چیزوں پر مبنی ہیں، جن سے مل کر بھوک سے متعلق اہم معلومات سامنے آتی ہیں۔ مندرجہ ذیل چار چیزیں جی ایچ آئی اسکور کا حساب لگانے کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔

بھر پیٹ کھانا نہیں ملنا : آبادی کا وہ حصہ جسے کافی کیلوریز نہیں مل رہی ہیں۔بچوں کی نشوونما: آبادی میں پانچ سال سے کم عمر کے بچوں کا تناسب جن کا قد ان کی عمر کے لحاظ سے چھوٹا ہے۔ یہ ان میں غذائیت کی کمی کو ظاہر کرتا ہے۔ بچوں کی شرح اموات: ان بچوں کے حصہ سے شمار کیا جاتا ہے جو اپنی پانچویں سالگرہ سے پہلے مر جاتے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بچوں کی غذائیت ناکافی ہے اور انہیں خراب ماحول میں رہنا پڑتا ہے۔بچوں کا  دبلاپن: آبادی میں پانچ سال سے کم عمر کے بچوں کا تناسب جن کا وزن ان کے قد سے کم ہے۔ یہ شدید غذائی قلت کی نشاندہی کرتا ہے۔


جی ایچ آئی کے لیے ان چار چیزوں کا ڈیٹا لیا جاتا ہے اور اسکور کا فیصلہ فارمولے کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ اسکور ملنے کے بعد رپورٹ تیار کی جاتی ہے۔ جی ایچ آئی اسکور کا حساب 100 پوائنٹ اسکیل پر کیا جاتا ہے۔ اگر کسی ملک کا اسکور صفر ہے یا اس کے قریب ہے تو اس کا مطلب ہے کہ وہاں بھوک کا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ اگر کسی ملک کا اسکور 100 یا اس کے قریب ہے تو یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہاں بھوک اور غذائیت کی کمی کا سنگین مسئلہ ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔