سپریم کورٹ کے جج نے عمر خالد کی درخواست ضمانت پر سماعت سے خود کو کیا علیحدہ! کیس کی سماعت 17 اگست تک ملتوی

جسٹس بوپنا نے ابتدا میں جسٹس مشرا کے انکار کی کوئی وجہ بتائے بغیر کہا کہ یہ کسی اور بنچ کے سامنے آئے گا، میرے ساتھی جسٹس مشرا کو اس معاملے کی سماعت کرنے میں کچھ دقت ہے!

عمر خالد، تصویر آئی اے این ایس
عمر خالد، تصویر آئی اے این ایس
user

قومی آواز بیورو

نئی دہلی: سپریم کورٹ کے جج جسٹس پرشانت کمار مشرا نے بدھ کے روز فروری 2020 کے دہلی فسادات کی مبینہ سازش سے متعلق یو اے پی اے کیس میں جے این یو کے سابق طالب علم رہنما عمر خالد کی درخواست ضمانت پر سماعت سے خود کو علیحدہ کر لیا۔ دہلی ہائی کورٹ نے گزشتہ سال 18 اکتوبر کو اس کیس میں خالد کی ضمانت کی عرضی کو مسترد کر دیا تھا۔ دہلی ہائی کورٹ کے حکم کو چیلنج کرنے والی عرضی جسٹس اے ایس بوپنا اور جسٹس پرشانت کمار مشرا پر مشتمل بنچ کے سامنے سماعت کے لیے پیش کی گئی ہے۔

جسٹس بوپنا نے ابتدا میں جسٹس مشرا کے انکار کی کوئی وجہ بتائے بغیر کہا کہ یہ کسی اور بنچ کے سامنے آئے گا۔ میرے ساتھی جسٹس مشرا کو اس معاملے پر میں کچھ دقت ہے۔ دہلی پولیس کی طرف سے پیش ہوئے ایڈوکیٹ رجت نائر نے بنچ کو بتایا کہ انہوں نے جوابی حلف نامہ داخل کیا ہے لیکن سپریم کورٹ رجسٹری نے اس پر اعتراض کیا ہے۔


انہوں نے کہا کہ بیانات کے کچھ حصے ہیں جو ہم نے نکالے ہیں، وہ حصہ قومی زبان میں ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ بیان خود قومی زبان میں ہے۔ نائر نے کہا کہ وہ اس کیس میں دائر چارج شیٹ کا متعلقہ حصہ بھی داخل کرنا چاہتے ہیں۔ اس معاملے کی سماعت 17 اگست کو مقرر کرتے ہوئے بنچ نے کہا کہ جوابی حلف نامہ ریکارڈ پر لیا جائے۔

بنچ نے کہا کہ بنچ کی اس ساخت میں معاملہ نہیں اٹھایا جا سکتا، لہذا اسے 17 اگست کے لیے فہرست بند کریں۔ 12 جولائی کو دہلی پولیس نے خالد کی عرضی پر جواب دینے کے لیے وقت مانگا تھا۔ خالد کی طرف سے پیش ہونے والے سینئر وکیل کپل سبل نے تب کہا تھا کہ ضمانت کے معاملے میں کون سا جواب داخل کیا جانا ہے! یہ شخص دو سال اور 10 ماہ سے جیل میں قید ہے۔


عدالت عظمیٰ نے 18 مئی کو ضمانت سے انکار کرنے کے ہائی کورٹ کے حکم چیلنج کرنے والی خالد کی درخواست پر دہلی پولیس سے جواب طلب کیا تھا۔ ہائی کورٹ نے پچھلے سال اکتوبر میں ان کی ضمانت کی عرضی کو یہ کہتے ہوئے مسترد کر دیا تھا کہ وہ دوسرے شریک ملزمان کے ساتھ مسلسل رابطے میں تھے اور ان کے خلاف الزامات بادی النظر درست نظر آتے ہیں۔ ہائی کورٹ نے مزید کہا تھا کہ بادی النظر ملزمان کی کارروائیاں انسداد دہشت گردی قانون یو اے پی اے کے تحت ’دہشت گردانہ کارروائی‘ لگ رہی ہیں۔

خیال رہے کہ عمر خالد، شرجیل امام اور کئی دیگر کے خلاف انسداد دہشت گردی قانون غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ (یو اے پی اے) فروری 2020 کے فسادات میں مبینہ ’ماسٹر مائنڈ‘ کا کردار ادا کرنے کا الزامات عائد کیے گئے تھے۔ الزام میں تعزیرات ہند کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔

ستمبر 2020 میں دہلی پولییس کی طرف سے گرفتار کئے گئے عمر خاند نے اس بنیاد پر ضمانت کی درخواست کی تھی کہ ان کا تشدد میں نہ تو کوئی مجرمانہ کردار ہے اور نہ ہی اس کیس میں کسی دوسرے ملزم کے ساتھ کوئی ساز باز تھی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔