سہارنپور: مدرسہ میں پڑھنے والے دو مسلم بھائیوں نے بغیر کوچنگ کے پاس کیا نیٹ کا امتحان، ڈاکٹر بننے کا ہے خواب!

محمد فاضل اور محمد اعظم نے بالترتیب 649 اور 642 نمبرات حاصل کیے ہیں، دونوں بھائیوں نے ابتدائی تعلیم مدرسہ میں حاصل کی اور ان میں سے ایک (محمد اعظم) حافظ قرآن ہیں۔

<div class="paragraphs"><p>(دائیں سے بائیں) محمد اعظم، محمد فاضل کے والد اور محمد فاضل</p></div>

(دائیں سے بائیں) محمد اعظم، محمد فاضل کے والد اور محمد فاضل

user

آس محمد کیف

جب آپ کے اندر کامیابی حاصل کرنے کی لگن ہو تو ناکامیابی قریب بھی نہیں آتی۔ اس کی تازہ مثال سہارنپور کے گھاڑ علاقہ واقع بے حد پسماندہ گاؤں مرزاپور کے دو بھائیوں نے پیش کی ہے۔ انھوں نے مشکل حالات سے مقابلہ کرتے ہوئے نیٹ کے امتحان میں بے حد اچھے نمبرات کے ساتھ کامیابی حاصل کی ہے۔ اب دونوں کو اتر پردیش کے ٹاپ-10 میڈیکل کالج میں سے کسی ایک میں آسانی سے داخلہ مل جائے گا۔ یہاں سب سے خاص بات یہ ہے کہ ان دونوں بھائیوں نے کوئی کوچنگ سنٹر جوائن نہیں کی، بلکہ گھر پر رہ کر آن لائن پڑھائی کی اور کامیابی کی ایک بے مثال داستان لکھ ڈالی۔

یہ کامیابی حاصل کی ہے محمد فاضل اور محمد اعظم نے جنھوں نے بالترتیب 649 اور 642 نمبرات حاصل کیے ہیں۔ دونوں بھائیوں نے ابتدائی تعلیم مدرسہ میں حاصل کی اور ان میں سے ایک (محمد اعظم) حافظ قرآن ہیں۔ محمد اعظم اور محمد فاضل دونوں چچازاد بھائی ہیں اور دونوں نے ہی ساتھ مل کر نیٹ امتحان کی تیاری کی۔ محمد فاضل کے والد محمد عادل مرزاپور گاؤں میں ہی ایک کلینک چلاتے ہیں۔ دوسری طرف محمد اعظم کے والد مولانا آصف قریب کے ہی چھٹمل پور میں ایک مدرسہ چلاتے ہیں۔ اسی مدرسہ کاشف العلوم میں فاضل اور اعظم نے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ آگے چل کر محمد اعظم نے حفظ قرآن مکمل کیا۔

<div class="paragraphs"><p>اپنے والدین کے ساتھ محمد فاضل</p></div>

اپنے والدین کے ساتھ محمد فاضل


اس متوسط طبقہ ہی نہیں بلکہ اس گاؤں (مرزا پور) میں بھی اس سے پہلے کوئی ایم بی بی ایس تک نہیں پہنچا ہے۔ ایسا پہلی بار ہے جب ایک ہی کنبہ کے دو لڑکے ایم بی بی ایس کا داخلہ امتحان کا مرحلہ پار کر چکے ہیں۔ محمد فاضل بتاتے ہیں کہ یہ کامیابی انھیں چوتھی کوشش میں حاصل ہوئی ہے۔ اس کے لیے وہ کہیں کوچنگ کرنے نہیں گئے۔ انھوں نے بتایا کہ پہلی کوشش میں انھیں 162 نمبر ملے تھے، دوسری کوشش میں 542 نمبر ملے اور پھر تیسری کوشش میں 595 نمبر حاصل ہوئے تھی۔ چوتھی کوشش میں کامیابی ملی جب 649 نمبرات حاصل ہوئے۔ گزشتہ سال وہ صرف 1 نمبر سے ایم بی بی ایس میں داخلہ لینے سے محروم رہ گئے تھے۔ فاضل بتاتے ہیں کہ وہ چاہتے تو بی ڈی ایس یا بی یو ایم ایس میں داخلہ لے سکتے تھے، لیکن انھوں نے ایسا نہیں کیا کیونکہ ان کا مقصد صرف ایم بی بی ایس ہی تھا۔ فاضل یہ بھی بتاتے ہیں کہ انھیں کامیابی چار کوششوں کے بعد ملی، لیکن کبھی بھی وہ مایوس نہیں ہوئے، بلکہ ان کا ارادہ مزید مضبوط ہوتا گیا۔ اپنے گھر کے ایک گوشے میں اسٹڈی روم بنایا اور مستقل طور پر بس پڑھائی کرتے رہے۔ سماجی بھیڑ بھاڑ سے بھی خود کو دور کیا اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ مجھے میرے کنبہ کا بھرپور ساتھ ملا۔ آن لائن پڑھائی کرنا ایک بہترین متبادل ہے جس کا میں نے فائدہ اٹھایا۔

محمد فاضل کے بھائی حافظ محمد اعظم کو نیٹ امتحان میں 642 نمبرات حاصل ہوئے ہیں اور ان کی بھی یہ چوتھی کوشش تھی۔ اعظم کو تو پہلی کوشش میں صرف 70 نمبرات ہی ملے تھے اور دوسری و تیسری کوشش میں بالترتیب 406 اور 560 نمبرات ملے۔ محمد اعظم مسجد میں نماز بھی پڑھاتے ہیں۔ اس بار رمضان میں انھوں نے مسجد میں پورے مہینے نماز تراویح بھی پڑھائی۔ رمضان کے ٹھیک 15 دن بعد نیٹ کا امتحان تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’مستقل تعلیم حاصل کرنے سے وہ ذہنی طور پر بہت مضبوط ہو گئے ہیں۔ پڑھنا اور سیکھنا عادت بن گئی ہے۔‘‘ اب وہ ڈاکٹر بن کر ضرورت مندوں کا مفت علاج کرنا چاہتے ہیں۔ محمد اعظم اور محمد فاضل کے والد جہاں آپس میں حقیقی بھائی ہیں، تو دونوں کی والدہ بھی آپس میں حقیقی بہنیں ہیں۔ فاضل کی والدہ نسرین کہتی ہیں کہ ان کے گھر میں یہ دوہری خوشی ملی ہے۔ سب سے اچھی بات یہ ہے کہ ہمارے بچے کسی بھی طرح کی برائی سے دور ہیں۔

<div class="paragraphs"><p>پڑھائی کرتے ہوئے محمد فاضل</p></div>

پڑھائی کرتے ہوئے محمد فاضل


قابل ذکر بات یہ ہے کہ محمد اعظم نے ہندی میڈیم سے اور محمد فاضل نے انگریزی میڈیم سے پڑھائی کی تھی۔ ایسی حالت میں اعظم کو اپنی انگریزی کو بھی بہتر کرنا تھا۔ اعظم اپنے چچازاد بھائی سے عمر میں ایک سال بڑے ہیں۔ دونوں نے تعلیم ساتھ میں ہی حاصل کی ہے۔ اعظم کے والد مولانا آصف کہتے ہیں کہ وہ اپنے بیٹے کی کامیابی سے بہت خوش ہیں۔ ان کا بیٹا اگر انجینئر بنتا تو شاید غریب لوگوں کی اتنی مدد نہیں کر پاتا، لیکن اب وہ غریبوں کے کام آئے گا۔ اعظم کی والدہ خوش نصیب کہتی ہیں کہ ذہن کی اچھی سوچ سے یہ کامیابی ملی ہے۔ ہمارے بچے آوارہ گردی اور فالتو چیزوں سے دور رہے ہیں، یہ اللہ کا کرم ہے۔

دونوں بھائیوں کی کامیابی پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے مقامی رکن اسمبلی عمر علی خان نے کہا کہ ’’مدرسہ کے بچوں کا کامیابی حاصل کرنا بہت مسرت آمیز ہے۔ یہ اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ مدرسہ ملک کی خدمت میں بھی اپنا تعاون پیش کر رہا ہے۔ ان بچوں نے جن مشکل حالات میں پڑھائی کی ہے، وہ قابل ترغیب ہے۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔