منصور احمد عثمانی کے انتقال پر سرکردہ ادیبوں و دانشوروں کا خراج عقیدت

منصور احمد عثمانی کو اردو زبان اور تہذیب سے بے پناہ لگاؤ تھا۔ دہلی اردو اکادمی کے سکریٹری کی حیثیت سے انھوں نے اردو زبان کے فروغ کے لئے نمایا ں خدمات انجام دیں۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

یو این آئی

نئی دہلی: دہلی اردو اکادمی کے سابق سیکریٹری منصور احمد عثمانی کا یہاں گذشتہ روز طویل علالت کے بعد انتقال ہوگیا۔ ان کی عمر تقریباً 72 برس تھی۔ پسماندگان میں اہلیہ مشیدہ پروین کے علاوہ دو بیٹے عاقب عثمانی اور فہد عثمانی ہیں۔ ان کی اہلیہ معروف شاعر خضر برنی کی صاحبزادی اورمزاحیہ شاعر نظر برنی کی ہمشیرہ ہیں۔ منصور احمد عثمانی کی پیدائش11 دسمبر1949 کو اتر پردیش کے مردم خیز خطہ دیوبند میں ہوئی تھی۔ وہ پانچ برس کی عمر میں اپنے والد حکیم اختر حسن عثمانی کے ساتھ دہلی آگئے تھے۔ انھوں نے دہلی کالج سے گریجویشن کرنے کے بعد فارسی میں ایم اے کیا تھا۔ بعد میں دہلی سرکار کے محکمہ السنہ سے وابستہ ہونے کے بعد انھوں نے دہلی یونیورسٹی کی شبینہ کلاسوں سے1987 میں اردو میں ایم اے کیا۔

انھیں اردو زبان اور تہذیب سے بے پناہ لگاؤ تھا۔ دہلی اردو اکادمی کے سکریٹری کی حیثیت سے انھوں نے اردو زبان کے فروغ کے لئے نمایاں خدمات انجام دیں۔ وہ ترقی کرتے ہوئے دہلی کے ڈپٹی کمشنر آف ٹرانسپورٹ کے عہدے تک پہنچے اور یہیں سے 2009 میں سبکدوش ہوئے۔ اس دوران انھوں نے اسسٹنٹ کمشنر برائے خوراک ورسد اور ایڈیشنل سروے کمشنر برائے وقف اور مالیات کے علاوہ دہلی سرکار کے الیکشن آفیسر کی ذمہ داریاں بھی سنبھالیں۔


ان کے انتقال پر دہلی کی سرکردہ علمی اور ادبی شخصیات نے اظہار تعزیت کیا ہے۔ قومی اردو کونسل کے ڈائریکٹر ڈاکٹر شیخ عقیل احمد نے کہا کہ ”دہلی یونیورسٹی کی شبینہ کلاسز میں ہم جماعت کے طور پر انھیں قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ وہ انتہائی خلیق اور ملنسار انسان تھے اور انھوں نے میری کیریرسازی کے دوران میری بہت مدد کی۔“ سینئر صحافی اور ادیب معصوم مرادآبادی نے کہا کہ ”منصور عثمانی نے ایک ایماندار اور فرض شناس افسر کے طور پر اپنی شناخت بنائی اور اردو زبان وتہذیب کی آبیاری کے لئے خود کو وقف کردیا۔ وہ ایک کھرے اور بے خوف انسان تھے۔“

راجیہ سبھا سکریٹریٹ کے سابق اہل کار اور مرحوم کے ہمدم دیرینہ دوست محمد نبی خاں نے کہا کہ”دوست تو سبھی بنا لیتے ہیں مگر دوستی نبھانے کا جو فن منصور عثمانی میں تھا، وہ میں نے کسی اور میں نہیں دیکھا۔“ دہلی سرکار کے سابق پریس آفیسر عظیم اختر نے کہا کہ ”منصور عثمانی ایک خاموش طبع اور بے ضرر قسم کے انسان تھے۔ انھوں نے بے شمار لوگوں کو فیض پہنچایا۔“ دوردرشن کے سابق پرڈیوسر انجم عثمانی نے کہا کہ ”منصور عثمانی ایک خدا ترس انسان تھے اور انھوں نے حکومت کے اعلی عہدوں تک پہنچنے کے باوجود اپنی ذات کو ہر قسم کے تنازعات سے پا ک رکھا۔“ خراج عقیدت پیش کرنے والوں میں دہلی اردو اکادمی کے سابق سکریٹری انیس اعظمی، دہلی حج کمیٹی کے سکریٹری ڈاکٹر اشفاق احمد عارفی بھی شامل ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔