کشمیر میں اَشیائے ضروریہ کی قلت، گوشت 500 روپے کلو

شاہراہ کا بند ہونا بلکہ بند ہونے کی افواہ پھیلتے ہی یہاں سبزی فروش متعلقہ محکمے کی طرف سے جاری نرخ ناموں کو سڑی سبزیوں کے بجائے کوڑے دان کی نذر کر کے اپنی مرضی کے مطابق سبزیوں کی قیمت طے کرتے ہیں۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

یو این آئی

سری نگر: وادی کشمیر کو بیرون دنیا کے ساتھ جوڑنے والی سری نگر-جموں قومی شاہراہ ہفتے میں سیول ٹریفک پر دو روزہ پابندی اور موسمی حالات کی وجہ سے بسا اوقات بند رہنے کے نتیجے میں اشیائے ضروریہ خاص طور پر اشیائے خورد ونوش کی قلت اور گراں بازاری نے اہلیان وادی کی مشکلات میں اضافہ کر دیا ہے۔

شاہراہ بند ہوتے ہی یہاں تمام اشیائے ضروریہ بالخصوص اشیائے خورد نوش کی قیمتیں یکایک آسمان کو چھونے لگتی ہیں اور سبزیاں جو یہاں کے مرکزی غذا کاجزولاینفک ہے، سونے کے بھاؤ فروخت کی جاتی ہیں یہاں تک کہ مقامی سبزیوں جیسے ساگ اور پالک کی قیمتیں بھی دوگنا بڑھ جاتی ہیں۔

شاہراہ کا بند ہونا بلکہ شاہراہ بند ہونے کی افواہ پھیلتے ہی یہاں سبزی فروش متعلقہ محکمے کی طرف سے جاری نرخ ناموں کو سڑی سبزیوں کے بجائے کوڑے دان کی نذر کرکے اپنی مرضی کے مطابق سبزیوں کی ریٹ طے کرتے ہیں۔ بازاروں میں ٹماٹر 80 روپیہ فی کلو فروخت کیا جارہا ہے جو معمول کی ریٹ سے دوگنا زیادہ ہے اسی طرح گوبھی، اور بند گوبھی بھی 60 روپیہ فی کلو بیچی جاتی جو چند روز قبل 30 روپیہ فی کلو دستیاب تھی۔ آلو، پیاز، مولی، گاجر اور لوکی کی قیمتیں بھی دوگنا بڑھ گئی ہیں اور یہ سبزیاں بھی بازاروں میں 30 سے 40 روپیہ فی کلوکی ریٹ سے فروخت ہورہی ہیں۔


اسی طرح پھلوں کی قیمتیں بھی عام شہری کے حد استطاعت سے باہر ہیں۔ کیلے ایک سو روپیے فی درجن اور سنترے 180 روپیے فی درجن کے حساب سے فروخت کئے جارہے ہیں جو معمول کی ریٹ سے بہت زیادہ ہے۔ پیتا 80 روپیے فی کلو، تربوزہ 60 روپیے فی کلو، خربوزہ 80 روپیے فی کلو اور انار اور سیب 150 روپیے فی کلو اور 200 روپیے فی کلو بالترتیب کے حساب سے بازاروں میں دستیاب ہیں۔

گوشت اور چکن، جس کے اہلیان کشمیر کچھ زیادہ ہی شوقین ہیں، نایاب ہی ہیں اب اگر کہیں موجود ہے تو گوشت 500 روپیے فی کلو اور چکن 160روپیے فی کلو کی ریٹ سے دستیاب ہے جس کو خریدنا ایک عام مزدور کے لئے ایک ایسے سنگ گراں کو اٹھانے کے برابر ہے جس سے اس کی کمر ٹوٹنا یقینی ہے۔

یہاں مقامی فارموں سے بھی چکن سپلائی کئے جاتے ہیں لیکن ان فارموں کے مالکان اور اس تجارت سے جڑے لوگ بھی اس موقعے کو ہاتھ سے جانے کو سب سے بڑی بے وقوفی سمجھتے ہیں اورلوگوں کو دو دوہاتھ لوٹنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑتے ہیں۔ تاہم اگر یہی رجحان جاری رہا تو ماہ مئی کے پہلے ہفتے سے شروع ہونے والے ماہ مبارک رمضان کے دوران لوگوں کے مشکلات مزید پیچیدہ ہوں گے۔

محمد اشرف نامی ایک درجہ چہارم کے سرکاری ملازم نے سبزیوں کی قیمتوں کے بے تحاشا اضافے کے بارے میں یو این آئی کو بتایا 'اگر یہی صورتحال جاری رہی تو سبزیاں خریدنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن بن جائے گا، ایسا لگتا ہے سبزیوں کی ریٹ کو قابو میں رکھنے کے لئے نہ کوئی قانون ہے اور نہ کسی محکمے کا وجود ہے'۔


ظہور احمد نامی ایک ایگزیکیٹو افسر نے متعلقہ حکام کو مورد الزام ٹھہراتے ہوئے کہا 'عید الفطر کے بعد ہی وادی میں شادیوں کا سیزن شروع ہوگا اور یہاں گوشت اور چکن کو ناقابل یقین قیمتوں پر فرخت کیا جارہا ہے لہٰذا حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ خلاف ورزی کے مرتکبین کے خلاف کارروائی کرکے دونوں اشیا کی قیمتوں کو قابو میں رکھیں اور سرکاری نرخ ناموں کے مطابق ان کی فروخت کو یقینی بنانے کے لئے فوری اقدام کریں'۔

دریں اثنا پارمپورہ فروٹ منڈی کے ایک سبزی ڈیلر محمد مقبول کا کہنا تھا 'میں نے دلی میں 16 اپریل کو پپیتا، آم،امرود، تربوزہ جیسے پھلوں کے چھ ٹرک بُک کئے تھے اور امید تھی 18 یا 19 اپریل تک یہ ٹرک یہاں پہنچ جائیں گے لیکن اودھم پور میں یہ ٹرک 24 اپریل تک درماندہ رہے اور آج چھ میں سے تین ہی ٹرک یہاں پہنچ گئے اور ان بھرے پھل زیادہ تر سڑ چکےہیں'۔

انہوں نے الزام عائد کیا کہ اودھم پور میں ٹول عہدیدار تب تک گاڑیوں کو سری نگر کی طرف روانہ ہونے کی اجازت نہیں دیتے ہیں جب تک نہ انہیں رشوت نہیں دی جاتی ہے۔ جب محمد مقبول کو سبزیوں اور پھلوں کی قیمتوں میں اضافے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا 'جب مال کم اور مانگ زیادہ ہوتی ہے تو قیمتیں بڑھ ہی جاتی ہیں ہم ایسا جان بوجھ کر نہیں کرتے ہیں'۔ انہوں نے کہا کہ مختلف بہانوں پر شاہراہ کے بند رہنے سے ہماری تجارت بھی تباہ ہورہی ہے، کشمیر کی تاجر برادری کو بے تحاشا نقصان سے دوچار ہونا پڑتا ہے ، ہم نے ایسے سخت دن پہلے کبھی نہیں دیکھے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 26 Apr 2019, 4:10 PM