راہل گاندھی میں نظر آئی لوگوں کو امید کی کرن

بھارت جوڑو یاترا دہلی سے اتر پردیش میں داخل، دہلی کے لوگوں  کے لئے راہل گاندھی امید کی ایک نئی کرن کی شکل میں سامنے آئے۔

<div class="paragraphs"><p>بھارت جوڑو یاترا، تصویر یو این آئی</p></div>

بھارت جوڑو یاترا، تصویر یو این آئی

user

سید خرم رضا

بھارت جوڑو یاترا میں چلنے والے اور اس کو دیکھنے والوں میں جو جوش نظر آ رہا ہے وہ دیکھتے ہی بنتا ہے۔ بغیر کسی لالچ کے لوگ کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی کی ایک جھلک دیکھنے اور یاترا کو کامیاب بنانے کے لئے بڑی تعداد میں شریک ہو رہے ہیں۔ دہلی میں 9 دن کے آرام کے بعد صبح ہنومان مندر سے یاترا دوبارہ شروع ہوئی، جہاں راہل گاندھی نے مندر میں درشن کئے اور اس کے بعد اتر پردیش کی جانب چل دیئے لیکن اتر پردیش میں داخلہ سے پہلے وہ لوہے کے پل، شاستری پارک، سیلم پور، جعفرآباد، موجپور، گوکل پوری ہوتے ہوئے لونی پہنچے۔

سیکورٹی کو لے کر دہلی پولیس نے وہ تمام ضروری انتظامات کئے ہوئے تھے جن کی وجہ سے یاترا میں یاتریوں اور لوگوں کو کسی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ جن راستوں سے یاترا کو گزرنا تھا وہاں کی تمام دوکانیں بند کروا دی گئی تھیں اور مرکزی سڑک پر آنے کے لئے لوگوں کے لئے بہت کم راستے کھولے گئے تھے لیکن جن گلیوں سے راستے کھلے ہوئے تھے لوگ ان گلیوں سے مرکزی شاہراہ پر پہنچ رہے تھے جہاں سے یاترا گزرنی تھی۔


یاترا کے راستوں میں وہ راستے بھی شامل تھے جہاں کووڈ سے پہلے بڑے پیمانے پر فرقہ وارانہ فسادات ہوئے تھے لیکن جس تعداد میں لوگوں نے اس یاترا میں شرکت کی وہ اس بات کی علامت تھی کہ علاقہ کے لوگ اس یاترا کو لے کر پرامید ہیں اور وہ گزرے حالات سے خوفزدہ نہیں ہیں۔ کانگریس کے رضاکار جہاں پُرجوش انداز میں سڑکوں پر پرچم لئے نظر آ رہے تھے وہیں عوام یاترا کے مقاصد کو لے کر پر امید نظر آ رہے تھے۔ ہر قوم و طبقہ سے تعلق رکھنے والے لوگ اس یاترا کو دیکھنے کے لئے سڑکوں پر موجود نظر آئے۔

راہل کو دیکھنے کے لئے تو جم غفیر تھا لیکن ان راستوں سے راہل کے گزرنے کے دو گھنٹے پہلے سے ہی مستقل کچھ یاتری خاموشی سے اپنی منزل کی جانب گامزن تھے۔ کوئی یاتری اکیلا چل رہا تھا، کوئی دو۔تین کے ساتھ یاترا میں شامل تھے اور کچھ پانچ۔چھ کی تعداد میں چل رہے تھے اور انہیں کسی استقبال کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ ان کے ذہن میں یاترا کا مقصد تھا۔ کچھ لڑکے اپنا سامان لئے اپنے گلے میں کارڈ ٹانگے چلے جا رہے تھے، ایک لڑکی اپنے پیروں میں پٹیاں باندھ کر چل رہی تھی۔ ان یاتریوں میں کوئی شمال مشرق کا تھا تو کوئی جنوبی ہندوستان سے تعلق رکھتا تھا جبکہ شمالی ہندوستان کے مختلف طبقوں سے تعلق رکھنے والے یاتری بھی بڑی تعداد میں موجود تھے۔ لڑکیاں، لڑکے، ضعیف اور بچے سب اس یاترا میں نظر آئے۔


 یاترا کو دیکھنے کے لئے جہاں کچھ لوگ اکیلے یا اپنے دوستوں کے ساتھ سڑکوں پر نظر آ رہے تھے وہیں کچھ لوگ اپنی اہلیہ اور چھوٹے بچوں کے ساتھ یاترا کو دیکھنے اور دکھانے سڑک پر ڈٹے ہوئے تھے۔ کئی خاتون حجاب میں تھیں تو کوئی ساڑی کو زیب تن کئے ہوئے تھیں لیکن کسی میں بھی جوش کی کمی نظر نہیں آ رہی تھی۔ کندھوں پر اپنی بچیوں کو بٹھائے مرد ایسے خوش نظر آرہے تھے جیسے وہ اپنی بچیوں کو تاریخ کا کوئی سبق پڑھا رہے ہوں۔ گروپوں میں لوگ راہل گاندھی کا اس سردی میں ٹی۔شرٹ پہننے اور پیدل چلنے کا ذکر خوب کرتے نظر آ رہے تھے۔

جس انداز میں لوگ راہل گاندھی کی ایک جھلک پانے کے لئے بھاگ رہے تھے، ایک دوسرے کو دھکا دے رہے تھے اور پولیس کی سختیوں کو برداشت کر رہے تھے اس سے یہ پیغام تو واضح ہے کہ راہل گاندھی کو عوام ایک تبدیلی کی علامت سمجھ رہے ہیں۔ لوگوں کو راہل گاندھی میں ایسا قائد نظر آ رہا ہے جو ان کے مسائل کو حل کر سکتا ہے۔ یاترا کو دیکھنے آئے ایک شخص نے کہا ’’ راہل نہیں یہ ملک میں امید کی ایک کرن ہیں۔‘‘ بھارت جوڑو یاترا نے امید کی نئی کرن جگائی ہے اور عوام کو مایوسی سے باہر نکالنے کا کام کیا ہے۔ اتر پردیش میں یاترا کتنی مقبول ہوتی ہے یہ اگلے چند دنوں میں ظاہر ہو جائے گا، مگر یہ یاترا جو اس ماہ میں اپنی منزل تمام کر لے گی وہ جہاں سے بھی گزری ہے اس نے لوگوں میں ایک نئی امید اور جان تو پھونکی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔