والدین ہندو بچوں کو اچھی تعلیم کے لیے مدرسوں میں بھیجتے ہیں

یہ سب بی جے پی کے لیے سیاسی طور پر درست نہیں ہے، اس لیے ریاستی حکومت نہ صرف مدارس کی تحقیقات کر رہی ہے بلکہ ان کے خلاف کارروائی بھی کر رہی ہے

<div class="paragraphs"><p>Getty Images</p></div>

Getty Images

user

رام شرومنی شکلا

کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ آپ کے ذہن میں جو معلومات ہیں یا بھر دی گئی ہیں، وہ غلط بھی ہو سکتی ہیں اور حقائق کچھ اور ہو سکتے ہیں۔ اسی طرح کچھ مدارس میں بچوں کی تعلیم کے حوالے سے بھی ایک نئی حقیقت سامنے آئی ہے جو بظاہر چونکا دینے والی لیکن ایک نئی کہانی سناتی نظر آتی ہے۔ اتراکھنڈ کے مدرسوں میں بڑی تعداد میں ہندو بچے تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ ایسے مدارس کی تعداد 30 ہے اور ان میں 749 بچے غیر مسلم ہیں۔ یہ مدارس بنیادی طور پر ہریدوار، ادھم سنگھ نگر اور نینی تال اضلاع میں ہیں۔ ویسے، چونکہ یہ سب بی جے پی کے لیے سیاسی طور پر درست نہیں ہے، اس لیے ریاستی حکومت نہ صرف مدارس کی تحقیقات کر رہی ہے بلکہ ان کے خلاف کارروائی بھی کر رہی ہے۔ اس سلسلے میں نیشنل چائلڈ پروٹیکشن کمیشن بھی معلومات اکٹھی کر رہا ہے۔ بی جے پی اس خدشے کا اظہار کر رہی ہے کہ آیا ان کا مذہب تبدیل کر لیا گیا ہے۔ یہ بچے کن خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں اور مدارس تک کیسے پہنچے؟

ایسے میں کسی کے ذہن میں یہ سوال اٹھ سکتا ہے کہ ایسا کیوں ہے، جبکہ عام طور پر یہ مانا جاتا ہے کہ مدرسوں میں صرف مسلمان بچے ہی پڑھتے ہیں اور انہیں مذہبی تعلیم دی جاتی ہے۔ پھر غیر مسلم بچے ان سکولوں میں تعلیم حاصل کرنے کیوں جا رہے ہیں؟ پہلی بات یہ ہے کہ ان مدارس میں این سی ای آر ٹی کے معیار کے مطابق اچھی اور سستی تعلیم فراہم کی جا رہی ہے، اس لیے قریبی والدین اپنے بچوں کو یہیں تعلیم دلانے میں ترجیح دے رہے ہیں۔ دوسرے سرکاری سکولوں میں اچھی تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے بھی ایسا ہو رہا ہے، اس لیے وہ اپنے بچوں کو مدرسوں میں بھیج رہے ہیں کیونکہ دینی تعلیم کے حوالے سے کسی بچے پر کوئی جبر نہیں ہے۔


سینئر صحافی ایس ایم اے کاظمی کا کہنا ہے کہ اس پورے معاملے پر ابہام پھیلانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ دراصل یہ صرف نام کا مدرسہ ہے جبکہ اس میں سرکاری سکولوں کی طرح پڑھائی جاتی ہے۔ این سی ای آر ٹی کی کتابیں پڑھائی جاتی ہیں۔ محلے کے بچے جن کے پاس کوئی اور آپشن نہیں ہے وہ مدارس میں پڑھتے ہیں۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ والدین اپنے بچوں کو اچھی تعلیم کے لیے مدارس میں بھیجتے ہیں۔ بعض اوقات گھر سے قربت یا کم فیس بھی وجہ بنتی ہے۔ اگر انہیں سرکاری اسکولوں میں اچھی تعلیم ملتی تو وہ انہیں وہاں بھیجتے، مدرسوں میں کیوں بھیجتے؟ اس میں نہ صرف ہندو بلکہ دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے بچے بھی شامل ہیں۔

ڈپٹی رجسٹرار، اتراکھنڈ مدرسہ ایجوکیشن کونسل عبد الیامین کا بھی کہنا ہے کہ سب کچھ اصول و ضوابط اور والدین کی خواہش کے مطابق کیا جا رہا ہے۔ ان مدارس کو مدرسہ بورڈ نے تسلیم کیا ہے۔ اس میں واضح طور پر لکھا ہے کہ این سی ای آر ٹی کا نصاب لاگو کیا جائے گا اور تمام مضامین پڑھائے جائیں گے۔ یہ ان تمام مدارس میں لاگو ہے۔ تمام بچوں کو یکساں تعلیم دی جاتی ہے۔ مذہبی تعلیم مختلف ہے۔ مدارس میں صرف مسلم اساتذہ ہی نہیں معاشرے کے تمام طبقات کے اساتذہ ہوتے ہیں۔ والدین اپنے بچوں کو اس لیے بھیج رہے ہیں کہ وہ جانتے ہیں کہ مدارس میں مناسب اور غیر مذہبی تعلیم دی جارہی ہے۔ ہمارے پاس ان کے رضامندی کے خطوط بھی موجود ہیں۔ تفتیش میں کوئی حرج نہیں۔ ہم بھی یہ چاہتے ہیں کہ تحقیقات کی جائے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے اور کسی کو کوئی الجھن نہ رہے۔


ایک اور سینئر صحافی کا کہنا ہے کہ چونکہ لوک سبھا انتخابات قریب ہیں اس لیے یہ معاملہ شاید جان بوجھ کر اٹھایا جا رہا ہے۔ غور طلب ہے کہ کسی بھی والدین کی پہلی ضرورت یہ ہوتی ہے کہ اس کا بچہ اچھی تعلیم حاصل کرے اور جہاں اچھی تعلیم ملے گی وہاں بچے کو بھیج دیں گے۔ اس میں کسی لالچ یا دوسری باتوں کا کوئی مطلب نہیں۔ والدین نے خود اپنے بچوں کا اندراج کرایا ہے۔

اس معاملہ کے حوالہ سے ریاست کی دونوں بڑی پارٹیوں کے لیڈروں کے درمیان الزامات اور جوابی الزامات کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ اتراکھنڈ کانگریس کی چیف ترجمان گریما مہرا دسونی اس پورے معاملے کو بی جے پی کے نام نہاد ہندوتوا ایجنڈے کے لیے ایک بڑا دھچکا مانتی ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ بی جے پی حکومت کی ناک کے نیچے اتنی بڑی تعداد میں والدین اپنے بچوں کو مدرسوں میں بھیجنے پر مجبور ہیں۔ اگر انہیں سرکاری اسکولوں میں اچھی تعلیم مل رہی ہوتی تو یہ بچے مدرسوں میں کیوں جاتے؟ یہ اس حکومت کے تعلیمی نظام پر بہت بڑا نشان ہے۔ اس کے علاوہ بی جے پی کے ترجمان مان ویر چوہان نے اس پورے معاملے کی تحقیقات کی ضرورت پر زور دیا۔ ان کا کہنا ہے کہ تحقیقات کے بعد ہی اصل صورتحال معلوم ہوگی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔