’کٹھوعہ میں کوئی ریپ اور قتل ہوا ہی نہیں!‘

’’خوشی ہے کہ محبوبہ مفتی کی قیادت والی سابقہ مخلوط حکومت گر گئی۔ وہ ایک وہابی، سلفی، شدت پسند اور اسلام پسند حکومت تھی۔‘‘ ملزمان کے وکیل انکر شرما کا متنازع بیان۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

یو این آئی

جموں: وحشیانہ کٹھوعہ عصمت دری و قتل کیس کے ملزمان کے وکیل انکر شرما نے انتہائی متنازع بیان دیتے ہوئے کہا ہے کہ ضلع کٹھوعہ کے رسانہ میں گجربکروال خاندان سے تعلق رکھنے والی آٹھ سالہ بچی کا کوئی ریپ اور قتل نہیں ہوا بلکہ وہاں لاش کو پلانٹ کیا گیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ لاش کو پلانٹ کرنے کا مقصد رسانہ کے ہندوؤں کو کمزور کرکے وہاں کی جنگلی اراضی پر قبضہ جمانا تھا۔ انکور شرما نے ان متنازع باتوں کا اظہار اتوار کے روز یہاں پریس کلب جموں میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

انہوں نے محبوبہ مفتی کی قیادت والی سابقہ مخلوط حکومت کے گرنے پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایک وہابی، سلفی، شدت پسند اور اسلام پسند حکومت تھی۔ انہوں نے الزام لگایا کہ مفتی نہ صرف جنگجو تنظیموں کے ساتھ رابطے میں ہیں بلکہ وہ ان تنظیموں کے تئیں ہمدردی بھی رکھتی ہیں۔ انکور شرما جنہوں نے کٹھوعہ عصمت دری و قتل کیس سامنے آنے کے دن سے اب تک متعدد متنازع بیانات دیے ہیں، نے عصمت دری کے اس کیس کو سی بی آئی کے حوالے کرنے اور 14 فروری کو منعقد ہوئی محکمہ قبائلی امور کی ایک میٹنگ کے ’منٹس‘ (جس میں مبینہ طور پر گجر بکروالوں کو کہیں بھی جنگلی اراضی پر اراضی طور رہنے کا حق دیا گیا ہے)کو واپس لینے کا گورنر سے مطالبہ کیا ہے۔

انہوں نے کہا ’رسانہ کا کیس جان بوچھ کر سی بی آئی کے حوالے نہیں کیا گیا۔ آج پوری ذمہ داری کے ساتھ اور معقول انفارمیشن و شواہد کی بناء پر میں آپ کے سامنے یہ کہہ رہا ہوں کہ رسانہ میں جو مبینہ ریپ اور قتل ہوا ہے، یہ ایک جہادی قتل ہے۔ وہاں پر باڈی کو پلانٹ کیاگیا، یہ کسی ایجنسی کے ذریعہ کیا گیا۔ یہ کام کسی جنگجو تنظیم کے ذریعہ انجام دیا گیا۔ وہ کشمیر کی مین اسٹریم سیاسی جماعتوں کے ساتھ رابطہ رکھتے ہیں۔

محبوبہ مفتی کے بارے میں راء جیسی خفیہ ایجنسی نے کہا ہے کہ وہ کسی بھی آئینی پوزیشن کو سنبھالنے کے لئے فٹ نہیں ۔ کیونکہ اس کے نہ صرف جنگجو تنظیموں کے ساتھ رابطے ہیں بلکہ وہ ان تنظیموں کے تئیں ہمدردی بھی رکھتی ہیں‘۔

انہوں نے کہا ’گورنر صاحب کو رپورٹ منگواکر رسانہ کیس کی انکوائری سی بی آئی کو منتقلی کرنی چاہیے۔ رسانہ ایک چھوٹا سا گاؤں ہے جس میں صرف 13 گھر ہیں۔ جہادی طاقتوں نے اس گاؤں کو اس لئے چنا کیونکہ اس کے آس پاس 250 سے لیکر 300 ایکڑ کا جنگل ہے۔ اس گاؤں سے ایک نالہ گذرتا ہے جو پاکستان کی طرف بہتا ہے۔ وہ دراندازی کا ایک روٹ بھی ہے۔ سابقہ جنگجو، وہابی، سلفی، شدت پسند اور اسلام پسند سرکار نے جموں کے سب سے مضبوط ہندو بیلٹ ہیرا نگر میں بٹھنڈی (جہاں مسلمان خاصی تعداد میں مقیم ہیں)جیسی آبادی قائم کرنے کے لئے اور وہاں کے جنگلوں پر قبضہ کرنے کی کامیاب کوششیں کی ہیں‘۔

انکر شرما نے کہا کہ رسانہ کیس میں جہادی تنظیمیں ملوث ہیں۔ انہوں نے کہا ’رسانہ کیس کی سی بی آئی انکوائری اس لئے ضروری ہے کیونکہ اس میں ایجنسیاں اور جہادی طاقتیں شامل ہیں۔ مقصد یہی ہے کہ رسانہ کے لوگوں (ہندوؤں) کو کمزور کرکے وہاں کے جنگلوں پر قبضہ کیا جائے۔ نالے پر قبضہ کیا گیا ہے تاکہ دراندازی کرائی جائے‘۔

انہوں نے کہا ’وہاں (رسانہ کیس میں) بے گناہوں کو پھنسایا گیا ہے۔ تحقیقاتی ایجنسی (کرائم برانچ) آج بھی برابر مداخلت کررہی ہیں۔ وہ ٹرائل کو صحیح طریقے سے آگے بڑھانے نہیں دے رہی ہیں‘۔ انکور شرما نے دھمکی دیتے ہوئے کہا ’اگر کیس کی انکوائری سی بی آئی کے حوالے نہیں کی گئی تو لوگ ایک بار پھر سڑکوں پر آسکتے ہیں‘۔ ایڈوکیٹ شرما نے محبوبہ مفتی کی حکومت گرنے پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ’جموں وکشمیر میں اب گورنر راج نافذ ہوچکا ہے۔ ہمیں یہ کہتے ہوئے خوشی ہوتی ہے کہ یہاں پر جو وہابی، سلفی، شدت پسند اور اسلام پسند سرکار چل رہی تھی اس کا خاتمہ ہوا۔ مخلوط حکومت کی اکائی (بی جے پی) حکومت سے الگ ہونے پر مجبور ہوئی۔ ہم اس فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہیں‘۔

انہوں نے کہا ’جو 7 مارچ کو ہم نے محبوبہ مفتی کا انتہائی خفیہ ڈاکیومنٹ ہم پبلک ڈومین میں لائے تھے، ہم گورنر صاحب کو ایک مکتوب لکھ کر اُن سے گذارش کریں گے کہ وہ 14 فروری 2018 کے احکامات جس میں ایک مخصوص طبقہ کو گائیں ہلاک کرنے کے لئے، گائیں ذبح کرنے کے لئے، مویشیوں کو اسمگل کرنے کے لئے اور ہندو اکثریتی علاقوں میں مسلمانوں کو زمین ہڑپنے کے لئے قانونی جوازیت دی گئی تھی، ان احکامات کو واپس لیا جائے۔ مجھے سرکاری عہدیداروں سے معلوم ہے کہ ان احکامات کو عملی جامہ پہنایا جارہا ہے‘۔

انکر شرما نے کٹھوعہ عصمت دری و قتل کیس سامنے آنے کے دن سے اب تک متعدد متنازع بیانات دیے ہیں۔ انہوں نے اپریل میں جموں میں ایک عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے جموں کے ہندؤں سے کہا تھا کہ وہ اپنی زمین اور دیگر املاک مسلمانوں کو فروخت نہ کریں اور مسلمان گوجر بکروالوں کا بائیکاٹ کرتے ہوئے ان سے دودھ اور اس سے بننے والی اشیاء خریدنا بند کریں۔

اس سے قبل انکر شرما نے ایک اور متنازع بیان دیتے ہوئے کہا تھا کہ کرائم برانچ کی تحقیقات کی سربراہی ایک خاتون افسر (ڈپٹی ایس پی شیوتامبری شرما) کررہی تھیں اور اس کیس پر کام کرنا اس کی ذہانت سے باہر تھا۔

انکر شرما نے ایک اور متنازعہ بیان دیتے ہوئے کہا تھا کہ جموں میں ڈیموگرافی کی تبدیلی کے خلاف مقامی لوگوں کے اندر ناراضگی پیدا ہورہی تھی اور اس ناراضگی کو ختم کرنے کے لئے آٹھ سالہ کمسن بچی کو مہرہ بنایا گیا ۔ انہوں نے کہا تھا کہ جموں کی ہندو اکثریتی شناخت کو ختم کرنے کے لئے مختلف اسلامی تنظیمیں جموں میں مسلمانوں کو جموں کے ہندو اکثریتی علاقوں میں زمین خریدنے کے لئے پیسے دیتی ہیں۔ ان کا اشارہ ظاہری طور پر جموں میں زمین خریدنے والے کشمیریوں کی طرف تھا۔

واضح رہے کہ ضلع کٹھوعہ کے تحصیل ہیرانگر کے رسانہ نامی گاؤں کی رہنے والی آٹھ سالہ کمسن بچی جو کہ گجر بکروال طبقہ سے تعلق رکھتی تھی، کو 10 جنوری کو اُس وقت اغوا کیا گیا تھا جب وہ گھوڑوں کو چرانے کے لئے نزدیکی جنگل گئی ہوئی تھی۔ اس کی لاش 17 جنوری کو ہیرا نگر میں جھاڑیوں سے برآمد کی گئی تھی۔ کرائم برانچ پولس نے اپریل میں واقعہ کے سبھی 8 ملزمان کے خلاف چالان عدالت میں پیش کیا۔ سبھی ملزمان کے خلاف اس وقت پنجاب کی پٹھانکوٹ عدالت میں ٹرائل جاری ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔