ایودھیا میں سنگھ کا منصوبہ فلاپ، مسلمانوں کا صبر و تحمل رنگ لایا

اتر پردیش پولس کے مطابق 50 ہزار اور عمومی خیال کے مطابق بمشکل 20 ہزار لوگ ہی اس دھرم سنسد میں پہنچ سکے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

عبیداللہ ناصر

ایودھیا میں دھرم سنسد کے نام پر ملک میں بدامنی پھیلا کر ووٹوں کی فصل کاٹنے کے سنگھ پریوار کے منصوبہ کو جس طرح ایودھیا کے اطراف کے ہندوؤں نے ناکام کیا ہے اس سے سنگھ پریوار کے ہاتھ پاؤں پھول گئے ہیں ، سنگھ پہلے ہی مسلمانوں کے صبر و تحمل سے پریشان تھا کہ ساڑھے چار سال تک ہر طرح کہ شر انگیزی ، ظلم و ستم یہاں تک کہ موب لنچنگ کے واقعات کے باوجود مسلمان با لکل خاموش رہا جس کے سبب وہ ملک کو خانہ جنگی میں دھکیل کر اپنا سیاسی مقصد حاصل نہیں کر سکے، رہی سہی کثر عام ہندوؤں کی دوراندیشی اور فہم و فراست نے پوری کر دی۔سنگھ کا دعویٰ تھا کہ وہ اس دھرم سنسد میں دو لاکھ لوگوں کو اکٹھا کریگا ، لیکن خود اتر پردیش پولس کے مطابق 50 ہزار اور عمومی خیال کے مطابق بمشکل 20 ہزار لوگ ہی اس دھرم سنسد میں پہنچ سکے ، اس میں بیرون یو پی خاص کر مہاراشٹر سے اے لوگوں کی اچھی خاصی تعداد تھی جو شیو سینا کے سربراہ ادھو ٹھاکرے کے ساتھ آئے تھے ، جن کا سنگھ پریوار سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

اپنے فلاپ شو کو زندہ رکھنے کے لئے اب سنگھ پریوار نے مسلمانوں کو پھر دھمکی دینا شروع کردی ہے کہ وہ بابری مسجد کی متنازعہ زمین پر سے اپنا دعویٰ واپس لے لیں نہیں تو سنگھ کاشی اور متھرا کی مسجدوں پر بھی اپنادعویٰ پیش کر دے گا ، اس سے قبل اناؤ کے ممبر پارلیمنٹ ساکشی مہاراج دہلی کی تاریخی جامع مسجد کے سلسلہ میں کہہ چکے کہ اگر اسے منہدم کیا جائے تو اس کے نیچے سے مورتیاں برآمد ہوں گی، اگر نہ ہوں تووہ پھانسی پر چڑھنے کو تیار ہیں۔

ان کو یہ نہیں معلوم کہ بابری مسجد انہدام کے بعد نرسمہا راؤ کی حکومت نے ایک قانون بنا کےتمام عبادت گاہوں کی1947 والی پوزیشن برقرار رکھنے کو یقینی بنا دیا ہے ۔چونکہ بابری مسجد کا تنازعہ عدالت میں زیر غور تھا اس لئے اسے اس قانون کے دائره سے باہر رکھا گیا تھا۔ سنگھ صرف ہندو مسلم منافرت بڑھانے اور ہندوؤں کے یکمشت ووٹ حاصل کرنے کرنے کے لئے اس تنازعہ میں مسلمانوں کو گھسیٹ رہا ہے ، جبکہ معاملہ سپریم کورٹ اور بابری مسجد اور رام مندر کا مقدمہ لڑنے والوں کے درمیان ہے کیونکہ متنازعہ زمین کو سپریم کورٹ نے قبضہ میں لے کر مرکزی حکومت کو اس کا امین بنا دیا ہے یعنی صرف سپریم کورٹ ہی اس زمین کے مستقبل کا فیصلہ کر سکتا ہے۔

رام مندر تعمیر کے لئے کبھی قانون بنانے اور کبھی آرڈیننس لانے کی بھی بات کہی جارہی ہے اس ایشو پر ممتاز ماہرین قانون یہ واضح کر چکے ہیں کہ اگر مرکزی حکومت آرڈیننس لاتی ہے یا کوئی غیر قانونی راستہ اختیار کرتی ہے تو سپریم کورٹ میں پہلی ہی پیشی میں خارج ہو جائےگا کیونکہ ہمارے آئین نے ملک کےسبھی شہریوں کو برابر کے حقوق دیئے ہیں۔ اس اصول کے تحت یہ ممکن ہی نہیں کہ ایک فریق کی عبادت گاہ کی زمین جس کی مرکزی حکومت امین ہے وہ امانت میں خیانت کر کے کسی دوسرے فریق کو دے دے اور سپریم کورٹ اسے برداشت کر لے، دوسری بات ابھی یہ بھی واضح نہیں کہ کیا بی جے پی کی حلیف جماعتیں خاص کر جنتا دل یو اور جنوبی ہند کی جماعتیں بھی اس قانون یا آرڈیننس کی حمایت کریں گی۔

کیا بی جے پی دوسری سب سے زیادہ ممبران پارلیمنٹ بھیجنے والی ریاست بہارمیں اپنے اہم حلیف کی ناراضگی مول لے سکتی ہے۔ شیو سینا جو نریندر مودی کو بال ٹھاکرے کے بعد دوسرا ہندو ہردے سمراٹ قرار دیئے جانے سے پہلے ہی ناراض چل رہی ہے اس نے اس مسئلہ پر سبقت حاصل کرنے کا فیصلہ کر کے سنگھ پریوار کی مشکلات اور بڑھا دی ہیں، شیو سینا کا دعویٰ ہے کہ اس نےہی 1992 میں بابری مسجدمنہدم کی تھی کیونکہ اس وقت بھی سنگھ کی ہمت مسجد منہدم کرنے کی نہیں تھی اور اب مندر بھی وہی بنوائےگی ۔کیونکہ سنگھ کے پاس اس کی ہمت نہیں ہے ۔ اس طرح دو ٹھگوں کے درمیان بالادستی کی جنگ بھی شروع ہو گئی ہے، ظاہر ہے مندر تعمیر کے نام پر یہ سیاسی جنگ دونوں کو نقصان پہنچائے گی شاید یہی قدرت کا انصاف اور انتظام ہے کہ شرپسند عناصر آپس میں ہی لڑ کے ختم ہو جائیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔