آر بی آئی نے بھی مودی حکومت کو معاشی محاذ پر جھٹکا دیا، جی ڈی پی شرح ترقی کا اندازہ گھٹایا

سنٹرل بینک نے موجودہ مالی سال کے لیے جی ڈی پی شرح ترقی کا اندازہ 6.1 فیصد سے گھٹا کر 5 فیصد کر دیا اور مہنگائی شرح کا اندازہ 3.5 فیصد سے بڑھا کر 3.7 فیصد کر دیا ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

مرکز کی مودی حکومت کو معاشی محاذ پر ایک بار پھر جھٹکا لگا ہے۔ ریزرو بینک آف انڈیا (آر بی آئی) نے اپنی مانیٹری پالیسی کا تجزیہ کرتے ہوئے مالی سال 20-2019 کے دوران ملک کی جی ڈی پی شرح ترقی کے اندازے کو 6.1 فیصد سے گھٹا کر 5 فیصد کر دیا ہے۔

قابل ذکر ہے کہ معاشی ترقی کی شرح 6 سال کی ذیلی سطح پر پہنچ کر دوسری سہ ماہی میں 4.5 فیصد پہنچ گئی تھی۔ لیکن افسوسناک اور سنگین امر یہ ہے کہ مودی حکومت اس حقیقت کو ماننے کے لیے تیار ہی نہیں ہے۔ اسے اس بات پر یقین ہی نہیں کہ حالات اس قدر بدتر ہو چکے ہیں۔


معاشی ترقی کی شرح 4.5 فیصد رہ جانے کے بعد یہ قیاس آرائیاں ہو رہی تھیں کہ آر بی آئی ایک بار پھر ریپو ریٹ میں تخفیف کرے گا، لین ایسا کچھ دیکھنے کو نہیں ملا۔ تین دنوں کی پالیسی پر مبنی میٹنگ کے بعد شرحوں میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی۔ دوسری طرف سنٹرل بینک نے موجودہ مالی سال کے لیے جی ڈی پی شرح ترقی کا اندازہ 6.1 فیصد سے گھٹا کر 5 فیصد کر دیا اور مہنگائی شرح کا اندازہ 3.5 فیصد سے بڑھا کر 3.7 فیصد کر دیا ہے۔

پالیسی شرح میں تخفیف کو لے کر ماہرین کے ذریعہ قیاس لگائے جا رہے تھے۔ جی ڈی پی شرح کے 6 سال کی نچلی سطح پر پہنچنے اور ریٹنگ ایجنسیوں کے ذریعہ اندازہ گھٹائے جانے کی وجہ سے معیشت کو لے کر لوگوں کی فکر میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔


لگاتار 5 مرتبہ سنٹرل بینک نے ریپو ریٹ میں تخفیف کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اس سال ریپو ریٹ میں 1.35 فیصد کی کمی کی جا چکی ہے اور موجودہ شرح 5.15 فیصد ہے۔ ریپو ریٹ کے مزید گھٹنے کی حالت میں اس سے جڑے قرض مزید سستے ہو جاتے، یعنی آپ کی ای ایم آئی پر فرق پڑتا، لیکن ایسا نہیں ہوا۔

آر بی آئی کے ذریعہ بینکوں کو دیے جانے والے قرض کی شرح کو ہی ریپو ریٹ کہا جاتا ہے۔ اگر ریپو ریٹ میں کمی ہوتی ہے تو اس کا فائدہ عام لوگوں کو ہوتا ہے۔ ایسا اس لیے کیونکہ آر بی آئی کے ذریعہ ریپو ریٹ گھٹانے سے بینکوں پر شرح سود میں تخفیف کرنے کا دباؤ رہتا ہے۔ سا سے لوگوں کو قرض سستے میں مل جاتا ہے۔ حالانکہ بینک اسے کب تک اور کتنا کم کریں گے یہ ان پر منحصر کرتا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 05 Dec 2019, 1:41 PM
/* */