میرٹھ ایس پی کا بیان قابل مذت، معاملے کی ہو اعلی سطحی جانچ: مایاوتی

پورے ملک میں رہ رہے مسلمان ہندوستانی ہیں ناکہ پاکستانی، سی اے اے قانون کی مخالفت میں احتجاج کے دوران میرٹھ ایس پی شہر کی جانب سے ان کے تئیں فرقہ وارانہ زبان/تبصرہ کرنا قابل مذمت اور مایوس کن ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

یو این آئی

لکھنؤ: اترپردیش کے ضلع میرٹھ کے ایس پی (شہر) اکھلیش نارائن سنگھ کی شہریت (ترمیمی) قانون کے خلاف احتجاج کے دوران وائرل ویڈیو پر آج بہوجن سماج پارٹی (بی ایس پی) سپریمو مایاوتی نے بھی تلخ تبصرہ کرتے ہوئے اس کی اعلی سطحی جانچ کا مطالبہ کرتے ہوئے ایس پی کو برخاست کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ سینئر پولیس افسر کی وائرل ویڈیو سے ریاست میں سیاسی پارہ کافی گرم ہے۔ جہاں متنازع ویڈیو کو معاملہ بنا کر سیاسی پارٹیاں حکومت پر حملہ آور ہیں تو وہیں پولیس و حکومت کے بڑے افسران اس پر صفائی پیش کر رہے ہیں۔ سیاسی پارٹیاں ایس پی کے بیان کی مذمت کر رہی ہیں۔ سنیچر کو کانگریس کی جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی نے تلخ تبصرہ کیا تھا تو اتوار کو بی ایس پی سپریمو مایاوتی نے اسے بدقسمت قرار دیتے ہوئے پورے معاملے میں اعلی سطحی عدالتی جانچ کرانے کا مطالبہ کیا۔


اتوار کو اپنے ٹوئٹ میں بی ایس پی سپریمو نے لکھا ’’اترپردیش سمیت پورے ملک میں سالوں سے رہ رہے مسلمان ہندوستانی ہیں ناکہ پاکستانی یعنی شہریت (ترمیمی) قانون اور این آر سی کی مخالفت میں احتجاج کے دوران خاص کر اترپردیش کے میرٹھ کے ایس پی شہر کی جانب سے ان کی تئیں فرقہ وارانہ زبان/تبصرہ کرنا کافی قابل مذمت اور مایوس کن ہے۔ انہوں نے لکھا کہ سبھی پولیس اہلکار کی اعلی سطحی عدالتی جانچ ہونی چاہیے اور قصوروار ہونے کے صحیح ثبوت ملنے پر پھر ان کو فوراً نوکری سے برخاست کرنا چاہیے، بی ایس پی کا یہ مطالبہ ہے۔

قابل ذکر ہے کہ سنیچر کو وائرل ویڈیو کی چوطرفہ تنقید کے بعد صفائی پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ کچھ لڑکے ’پاکستان زندہ باد‘ کے نعرے لگا رہے تھے جس کے جواب میں انہوں نے ایسا کہا۔ لیکن ایس پی کی یہ صفائی کسی کے گلے نہیں اتر رہی ہے۔ بعض سماجی کارکنان کی جانب سے ایس پی کی صفائی پر سخت تبصرہ کیا گیا ہے کہ ایک خاص سماج کے تعلق سے پولیس کا یہ پرانا حربہ رہا ہے کہ پہلے وہ اس سماج کے تئیں اپنی ذہنی منافرت کا اظہار کرتی ہے اور جب اس کا پردہ فاش ہوتا ہے تو ’ملک مخالف کسی بھی سرگرمی‘ کا الزام گڑھ کراپنا پلڑا جھاڑ لیتے ہیں۔ یہی ان کا سب سے آسان طریقہ ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔