رکبر کی لنچنگ کر دو، ہریش کی لنچنگ کر دو، اگنیویش کی لنچنگ کر دو!

تصور کیجیے اگر آج شاعر مشرق اقبال زندہ ہوتے تو وہ اپنی نظم ’سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا‘ کو کس شکل میں لکھتے! کیا وہ اسے گہرے طنزیہ انداز میں ’لنچستاں ہمارا‘ نہ لکھتے؟۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

اجے سنگھ

لنچنگ، لنچنگ، لنچنگ! ہمارے ملک میں ہر طرف لنچنگ کی بربریت اور خونی شور برپا ہے۔ جو ہم سے متفق نہیں اس کی لنچنگ کر دو! جو مسلمان یا دلت ہے یا انتہائی غریب و محروم طبقہ سے ہے اس کی لنچنگ کر دو! انگریزی کا لفظ لنچ (lynch)... جس کا مطلب ہے راہ چلتے کسی کو بھیڑ کے ذریعہ پیٹ پیٹ کر مار ڈالنا... جیسے ہماری قومی شناخت بن گیا ہے۔ اور کیوں نہ بنے! اسے مرکز کی بی جے پی حکومت اور ریاستوں کی بی جے پی حکومتوں کا کہیں کھلی، کہیں چھپی حمایت ملی ہوئی ہے۔

بی جے پی کا ایک مرکزی وزیر لنچنگ کے ایک معاملے میں ذیلی عدالت سے عمر قید کی سزا پائے مجرموں کا، جنھیں ہائی کورٹ سے فی الحال ضمانت ملی ہوئی ہے (یہ ضمانت کیسے مل گئی، اسی پر سوال ہے)، اپنے گھر میں بلا کر برسرعام استقبال کرتا ہے، انھیں پھول مالائیں پہناتا ہے اور ان کے ساتھ تصویریں کھنچواتا ہے۔ بی جے پی کا ایک دیگر مرکزی وزیر مسلم مخالف تشدد کے الزام میں جیل میں بند فسادیوں سے کھلے عام ملتا ہے اور انھیں آزاد کر دینے کا مطالبہ کرتا ہے۔ عصمت دری کرنے والوں کی حمایت میں بی جے پی وزیر اورلیڈر سڑکوں پر جلوس نکالتے نظر آتے ہیں۔ لنچنگ کے ایک معاملے میں جیل میں بند ایک ملزم کی موت ہو جانے پر بی جے پی وزیر اور لیڈر اس کی لاش کو ترنگے جھنڈے میں لپیٹ کر سڑک پر مظاہرہ کرتے ہیں اور تصویر کھنچواتے ہیں۔

ایک مسلمان کا قتل کر دینے کے بعد گائے کے نام پر دہشت گردی پھیلانے والے اس کی لاش کو پولس کی موجودگی میں سڑک پر گھسیٹتے ہوئے دور تک لے جا رہے ہیں، تصویر میں سڑک پر گھسیٹی گئی لاش، قاتل اور پولس والے صاف دکھائی دے رہے ہیں۔ اور اس طرح کی جرائم پر مبنی، قابل سزا کارروائیوں میں شامل لوگوں کا کچھ نہیں بگڑتا بلکہ ان کے حوصلے مزید بلند ہو گئے ہیں، کیونکہ انھیں بہت اونچی سطح پر اقتدار (نفرت کی حکومت) کی پشت پناہی حاصل ہے۔

جولائی 2018 کے دوسرے نصف میں تین ایسے حادثات ہوئے جو ’نفرت کی ریاست‘ کی خوفناک تصویر پیش کرتی ہیں۔ تینوں حادثات میں آر ایس ایس-بی جے پی سے جڑے لوگ اور ان کی تنظیمیں شامل ہیں۔ پہلا واقعہ راجستھان کے الور ضلع میں ہوا جہاں 31 سال کے ایک مسلم نوجوان کو گائے کے نام پر دہشت گردی پھیلانے والوں نے مار ڈالا۔ اس حادثہ کو انجام دینے میں بی جے پی کے ایک ممبر اسمبلی اور پولس کا کردار کھل کر سامنے آیا ہے۔ دوسرا حادثہ کیرالہ میں ہوا جہاں ایک ملیالم ناول نگار کے ناول کو، جو ایک ملیالم ہفتہ وار میں سیریل کی شکل میں شائع ہو رہا تھا، فاشسٹ ہندتوا تنظیموں نے لنچنگ کا شکار بنا دیا... اس کی اشاعت روک دی۔

تیسرا حادثہ جھارکھنڈ میں ہوا جہاں 78 سال کے آریہ سماجی لیڈر پر آر ایس ایس-بی جے پی-بجرنگ دل سے جڑے غنڈوں نے حملہ کیا اور ان کی لنچنگ کی کوشش کی۔ پولس نے حملہ آوروں کو گرفتار کرنے کے بعد انھیں چھوڑ بھی دیا۔ راجستھان اور جھارکھنڈ میں بی جے پی کی حکومتیں ہیں، جب کہ کیرالہ میں سی پی آئی (ایس) کی قیادت میں بایاں محاذ کی حکومت ہے۔ کیرالہ حکومت نے ملیالم ناول نگار کی حمایت ہے اور کہا کہ ہم آپ کے ساتھ ہیں اور آپ بے خوف ہو کر لکھیے۔

آئیے، پہلے دیکھیں کہ ملیالم ناول نگار ایس ہریش کا معاملہ کیا ہے۔ ایس ہریش کو کہانی کے لیے سال 2017 کا کیرالہ ساہتیہ اکادمی ایوارڈ مل چکا ہے۔ ان کا ناول میشا (مونچھ) ملیالم کی مشہور ادبی میگزین ’ماتربھومی ویکلی‘ میں شائع ہو رہا تھا اور اس کی تین قسطیں شائع ہو چکی تھیں۔ تیسری قسط چھپتے چھپتے تخلیق کار اور ان کی فیملی کو فاشسٹ ہندوتوا تنظیموں کی جانب سے اتنی خوفناک اور پرتشدد دھمکیاں ملنے لگیں کہ انھیں مجبور ہو کر میگزین میں اپنے ناول کی اشاعت کو روکنا پڑا اور اسے واپس لے لینا پڑا۔

ناول ’میشا‘ بیسویں صدی کے بعد کیرالہ کی سماجی زندگی اور ذاتیاتی نظام پر نظر ڈالتا ہے۔ ناول کی دوسری قسط میں ایک کردار جب ڈائیلاگ بولتا ہے تو اس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ مندروں میں پوجا کے لیے جانے والی ہندو عورتوں اور پجاریوں کے درمیان جنسی تعلقات ہیں۔ اسی پر ہندوؤں کے جذبات کو ٹھیس پہنچی ہے۔ خوب ہنگامہ مچا اور رائٹر و اس کی فیملی کے لیے دھمکیوں اور گالیوں کی بوچھار شروع ہو گئی۔ اس سلسلے میں ’’ماتربھومی ویکلی‘ کے ایڈیٹر کمل رام سجیو نے ٹوئٹ کیا:... ایس ہریش اپنا ناول واپس لیتے ہیں، ادب کو بھیڑ کے ذریعہ لِنچ کیا جا رہا ہے، کیرالہ کی ادبی تاریخ کا سب سے سیاہ دن۔

جھارکھنڈ میں پاکوڑ میں جو آریہ سماجی لیڈر و سماجی کارکن اگنیویش پر جو حملہ ہوا اس کے پیچھے بھی یہی فاشسٹ دلیل دی گئی کہ وہ ہندو جذبات کو چوٹ پہنچاتے ہیں، پاکستان اور نکسلزم کی زبان بولتے ہیں اور عیسائی مشنریوں سے پیسے لے کر کام کرتے ہیں۔ پہاڑیہ قبائلیوں کی ایک تنظیم کی دعوت پر اس کے پروگرام میں شامل ہونے کے لیے اگنیویش پاکوڑ گئے تھے۔ حملہ کے واقع کے بعد صحافیوں سے بات کرتے ہوئے اگنیویش نے کھل کر کہا کہ میرے اوپر حملے کے پیچھے مرکز کی بی جے پی حکومت اور جھارکھنڈ کی بی جے پی حکومت کا صاف صاف ہاتھ ہے۔ انھوں نے کہا کہ حملہ آور نامعلوم یا انجان لوگ نہیں تھے۔

میوات (ہریانہ) کے رہنے والے رکبر خان عرف اکبر خان کی فیملی 50-40 سال سے گائے-بھینس پالنے کا کام اور دودھ فروخت کرنے کا کاروبار کرتا آ رہا ہے۔ دودھ فروخت کرنے کے کاروبار میں مزید اضافہ کرنے کے ارادہ سے گائے خریدنے کے لیے رکبر اور ان کے دوست اسلم راجستھان کے الور گئے۔ دو گائے خرید کر لوٹتے وقت 20 جولائی 2018 کو الور کے رام گڑھ علاقے میں گائے کے نام پر دہشت پھیلانے والوں نے ان دونوں کو گھیر لیا۔ اسلم تو کسی طرح بچ نکلے لیکن رکبر پر قاتلانہ حملہ ہوا اور اسپتال پہنچتے پہنچتے انھوں نے دَم توڑ دیا۔

اس معاملے میں الور کے ایک بی جے پی ممبر اسمبلی اور پولس کا کردار سنگین طور پر مجرمانہ رہا۔ جہاں رکبر پر حملہ ہوا وہاں سے سرکاری اسپتال کی دوری چھ کلو میٹر ہے۔ رکبر کو لے کر پولس کی جیپ کو یہ دوری طے کرنے میں تین گھنٹے کا وقت لگا۔ درمیان میں سڑک کے کنارے گاڑی روک کر پولس والے چائے پیتے رہے جب کہ گاڑی کے اندر سنگین طور پر زخمی رکبر آخری سانسیں لے رہے تھے۔

ہندوستان تیزی سے ’لنچستان‘ بن رہا ہے۔ ہم سب کے لیے خطرے کی گھنٹیاں زور زور سے بج رہی ہیں۔ تصور کیجیے اگر آج شاعر اقبال زندہ ہوتے تو وہ اپنی نظم ’سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا‘ کو کس شکل میں لکھتے! کیا وہ اسے گہرے طنزیہ انداز میں ’لنچستان ہمارا‘ نہ لکھتے؟

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔