’لاک ڈاؤں نے دہلی فساد متاثرین تک پہنچے والی امداد کی راہیں مسدود کر دیں‘

مولانا ارشد مدنی مدنی نے کہا کہ ملک کے لئے یہ نازک گھڑی ہے اور اس نازک گھڑی میں ہم سب کا یہ اخلاقی اورمذہبی فرض ہے کہ ضرورت مند اور پریشان کی ہرممکن طریقہ سے مدد کریں

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

نئی دہلی: ایک طرف کورونا وائر س جیسی خطرناک وبا سے ہندوستان کے عوام جہاں مستعدی سے جنگ لڑ رہے ہیں وہیں دوسری طرف غیر منظم طریقہ سے کیے گئے لاک ڈاؤن سے اب عام لوگوں کی زندگی بھی مشکل تر ہوتی جا رہی ہے، سب سے زیادہ پریشانی میں تو دہلی فساد کے متاثرین ہیں جن کی باز آباد کاری کا کام چل ہی رہا تھا کہ اچانک لاک ڈاؤن سے ان کے سامنے ایک نئی مصیبت آن کھڑی ہوئی ہے اور ان تک پہنچنے والی امداد کی راہیں بھی مسدود ہوتی جا رہی ہیں۔

اس نازک وقت میں ان کی پریشانی کو دیکھتے ہوئے مولانا سید ارشد مدنی کی ہدایت پر جمعیۃ علماء ہند ایک بار پھر مدد کے لئے سامنے آگئی تاکہ یہ متاثرین ضروری اشیاء کی خریداری بآسانی کرسکیں، چنانچہ کل پہلے مرحلہ میں 91 خاندانوں میں نقدی رقم تقسیم کی گئی اور یہ مالی مدد ہندومسلم کی تفریق کیے بغیر کی گئی ہے، ان میں قابل قدر تعداد ضرورت مند اورمجبور ہندو خاندانوں کی بھی ہے۔


مولانا مدنی کی ہدایت پرمفتی عبدالرازق کی نگرانی میں کھجوری خاص اور گڑھی مینڈھو اور دیگر علاقوں کے متاثرین کو یہ مالی مدد فراہم کی گئی ہے، جمعیۃعلماء ہند کی طرف سے سو عدد مکانوں کی تعمیر اور مرمت کا کام بھی چل رہا تھا، ساتھ ہی متاثرین کی باز آباد کاری بھی، لیکن لاک ڈاؤن کی وجہ سے سردست سارے کام رک گئے ہیں، مولانا مدنی نے کہا کہ جمعیۃعلماء ہند پہلے سے ہی دہلی فساد متاثرین کے درمیان کام کر رہی ہے مگر لاک ڈاؤن کے اعلان کے بعد ہم نے شدت سے یہ بات محسوس کی کہ بہت سے لوگوں کو ضروری اشیاء کے لئے پیسے کی اشد ضرورت ہوگی چنانچہ کچھ علاقوں میں لوگوں تک امدادی رقم نقد پہنچادی گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ کورونا وائرس کے پھیلنے اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے جو ہنگامی حالات پیدا ہوئے ہیں اس کے پیش نظرجمعیۃعلماء ہند کی تمام صوبائی یونٹوں کو اس بات کی ہدایت کردی گئی ہے کہ وہ مذہب کی تفریق کے بغیر ہر ضرورت مند کی مدد کریں، اترپردیش کے تقریباً مختلف اضلاع میں ہمارے رضاکار امداد اور راحت کے کام میں مصروف ہیں، دوسری ریاستوں میں بھی ضرورت مندوں کو راشن اور دوسری چیزیں مہیا کرانے کی کوشش ہو رہی ہے۔


مولانا مدنی نے کہا کہ ملک کے لئے یہ نازک گھڑی ہے اور اس نازک گھڑی میں ہم سب کا یہ اخلاقی اورمذہبی فرض ہے کہ ضرورت مند اور پریشان کی ہرممکن طریقہ سے مدد کریں اور اس بات کا خیال رکھیں کہ ہمارے پڑوس اور محلہ میں کوئی شخص بھوکا نہ رہے۔ قابل ذکر ہے کہ جمعیۃعلماء ہند ایک انتہائی قدیم اور نمائندہ تنظیم ہے جس نے اپنے قومی وملی نظریہ پر قائم رہتے ہوئے ہر موقع پر انسانوں کی خدمت کی ہے فسادات ہو یا پھرقدرتی آفات سے ہونے والی تباہی اس نے مذہب سے اوپر اٹھ کر متاثرین کی مدد کو ہمیشہ اپنا نصب العین سمجھا ہے۔

مولانا مدنی نے کہا کہ غیر منظم اندازمیں جس طرح لاک ڈاؤن کا اعلان کیا گیا اس کے مضراثرات رفتہ رفتہ ایک خطرناک شکل میں ہمارے سامنے آنے لگے ہیں دہلی اترپردیش کی سرحد پر بے بس اورمجبور انسانوں کا سیلاب یہ بتاتا ہے کہ لاک ڈاؤن کا فیصلہ لیتے ہوئے ہندوستان جیسے ملک پر پڑنے والے اثرات پر غور نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے لاک ڈاؤن شہری زندگی کے علاوہ بے معنی ہوکر رہ گیا ہے اور اس صورت میں عام شہریوں کو جو پریشانی یا دقت ہوسکتی ہے اس کا بھی اندازہ نہیں لگایا گیا اس بات کا ہی لحاظ نہیں رکھا گیا کہ ضروری اشیاء کی سپلائی کیوں کرممکن ہوگی، 14اپریل کی تاریخ ابھی بہت دور ہے مگر ابھی سے ضروری اشیاء کی قلت شروع ہوچکی ہے۔


مولانا مدنی نے کہا کہ اس طرح کے فیصلوں سے پہلے حکومتوں کو ان تمام باتوں پر غورکرنا چاہیے تھا مگر افسوس ایسا نہیں ہوا، کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لئے لاک ڈاؤن ضروری تھا مگر اس کے لئے پہلے سے تیاری بھی کی جانی چاہیے تھی، اب سڑکوں پر لاکھوں کی تعداد میں بے بس اور غریب لوگوں کی اپنے گھروں کو واپس لوٹنے کی مجبوری یہ بتانے کے لئے کافی ہے کہ حالات لاک ڈاؤن کی وجہ سے کس طرح ابتر ہوتے جارہے ہیں۔

وزارت صحت کے مطابق کورونا سے بچاؤ کا سب سے اہم علاج بھیڑمیں نہ شامل ہونا اور اکیلے میں رہنا اور دوسرے سے فاصلہ بناکر رکھنا ہی اس کا علاج ہے، لیکن اب جس طرح لوگ بھیڑ کی شکل میں نقل مکانی کر رہے ہیں اس سے لاک ڈاؤن کی افادیت ہی ختم ہوگئی ہے، جس طرح افراتفری کا ماحول ہے اس سے اس وبا کے پھیل جانے کے خطرات مزید بڑھ سکتے ہیں، خدانخواستہ جس سے پوراملک متاثر ہوسکتا ہے۔


افسوس کی بات تو یہ ہے کہ جو کام حکومتوں کو کرنا چاہیے تھا غیر سرکاری تنظیمیں کررہی ہیں جس کے رضاکار اپنی جان جوکھم میں ڈال کر اس طرح کی لوگوں کی ہر ممکن طرح سے مدد کر رہے ہیں، مگر حکومتوں کی طرف سے ان کی کوئی مدد نہیں ہو رہی ہے۔ المیہ تو یہ ہے کہ پولس کو کھلی چھوٹ دیدی گئی ہے کہ جو بے گناہ شہریوں کو ظلم وستم کا نشانہ بنا رہی ہے، یہاں تک کہ لوگ ضروری سامان کی خرید کے لئے بھی گھروں سے باہر نکلنے کا حوصلہ نہیں کر پا رہے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔