کٹھوعہ عصمت دری و قتل معاملہ: عدالت میں 27 مئی سے حتمی دلائل سنے جائیں گے

ایڈوکیٹ ساونی نے کہا کہ گواہوں کے بیانات قلمبند کرنے سے جرح تک ساری کارروائی ختم ہوچکی ہے اور کیس میں استغاثہ حتمی دلائل 27 مئی کو شروع کرے گا اور ایک یا دو دن میں وہ اپنی دلیلیں ختم کریں۔

تصویر یو این آئی
تصویر یو این آئی
user

یو این آئی

جموں: وحشیانہ کٹھوعہ عصمت دری وقتل کیس کے ملزمان کے وکیل اے کے ساونی نے کہا کہ ڈسٹرک اینڈ سیشن کورٹ پٹھان کوٹ میں اب یہ کیس آخری مرحلے میں پہنچ گیا ہے اور ماہ رواں کی 27 تاریخ سے آخری مرحلے کی سنوائی شروع ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ کیس کے آخری مرحلے میں طرفین کے حتمی دلائل سنے جائیں گے اور ماہ جون میں اس کا فیصلہ آنا طے ہے۔ ان کا کہنا تھا 'عدالت میں یہ کیس آخری مرحلے میں داخل ہوچکا ہے۔ اب استغاثہ بھی حتمی دلائل جج صاحب کے سامنے رکھے گا اور وکلاء صفائی بھی حتمی دلائل جج صاحب کے سامنے رکھے گا، دونوں کے حتمی دلائل سنے جائیں گے'۔


یہ امر یہاں قابل ذکر ہے کہ ضلع کٹھوعہ کے رسانہ نامی گاﺅں میں گزشتہ برس جنوری میں پیش آئے آٹھ سالہ کمسن بچی کی وحشیانہ عصمت دری اور قتل کیس کے ملزمان کا 'ان کیمرہ' اور روزانہ بنیاد پر ٹرائل ایک برس پہلے ڈسٹرک اینڈ سیشن کورٹ پٹھان کوٹ میں شروع ہوا۔

ایڈوکیٹ ساونی نے کہا کہ جب چالان سامنے آیا تھا تو اس وقت 350 گواہ تھے، 116 گواہ استغاثہ کی طرف سے پیش کیے گئے اور وکلاء صفائی نے بھی تھوڑے گواہ پیش کیے۔ انہوں نے کہا کہ گواہوں کے بیانات قلمبند کرنے سے جرح تک ساری کارروائی ختم ہوچکی ہے اور کیس میں استغاثہ حتمی دلائل 27 مئی کو شروع کرے گا اور ایک یا دو دن میں وہ اپنی دلیلیں ختم کریں گے اور اس کے بعد ڈیفنس اپنی دلیلیں پیش کرے گا۔


ملزمان کے وکیل نے کہا کہ اس کیس کا فیصلہ ماہ جون میں آنا طے ہے۔ انہوں نے کہا 'مجھے لگتا ہے کہ جون کے شروع ہوتے ہی جج صاحب حتمی دلائل سننے کے فوراً بعد اپنا فیصلہ سنائیں گے اور جون میں فیصلہ آنا طے ہے'۔

ایڈوکیٹ ساونی نے کہا کہ اس کیس کی روزانہ بنیادوں پر سنوائی ہوئی ہے اور ہمیں اپنی محنت کا صلہ ملنا چاہیے۔ انہوں نے کیس میں سی بی آئی کی طرف سے انکوائری کرنے کی بات کا اعادہ کرتے ہوئے کہا 'بحیثیت ڈیفنس کونسل جو اعتماد ہوتا وہ ہمیں شروع سے ہی رہا کہ یہ بے قصور لوگ تھے، بہت اچھا ہوتا اگر سی بی آئی انکوائری ہوتی تو اصلی قصوروار پکڑے جاتے، یہ کیس سی بی آئی انکوائری کے لئے فٹ کیس تھا اور اس طرح دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی الگ ہوتا اور اصلی مجرم سامنے آتے'۔


ایڈوکیٹ ساونی نے کہا کہ ہم سب سے جتنا ہوسکا ہم نے کوشش کی کہ جج صاحب کے سامنے سچائی پیش کی جائے، اور یہ بہت ہی مشکل کام ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اب سچائی سامنے آنے کا وقت سامنے آیا ہے جوں ہی ہماری بحث ختم ہوگی جج صاحب فیصلہ سنائیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ چار پولس اہلکاروں جن میں ایک سب انسپکٹر ایک کانسٹبل اور دو ایس پی اوز شامل ہیں، کا اس میں کوئی قصور نہیں تھا۔

قبل ازیں متاثرہ بچی کے والد محمد یوسف پجوال کے ذاتی وکیل (پرائیویٹ کونسل) مبین فاروقی جو سپیشل پبلک پراسیکیوٹرس سنتوک سنگھ بسرا اور جگ دیش کمار چوپڑا کو کیس میں اسسٹ کر رہے ہیں، نے یو این آئی اردو کو فون پر بتایا تھا کہ جون کے وسط تک کیس کا فیصلہ سامنے آنے کی امید ہے اور ملزمان کو سزائیں ملنا ایک سو ایک فیصد طے ہے۔ ان کا کہنا تھا 'جون کی 15 تاریخ تک کیس کا فیصلہ سامنے آنے کی امید ہے۔ اس وقت وکلاء صفائی اپنے گواہ عدالت میں پیش کررہے ہیں۔ آپ کو معلوم ہی ہے کہ واقعہ کے ملزمان کا ان کیمرہ اور روزانہ بنیادوں پر ٹرائل جاری ہے'۔


مبین فاروقی نے کہا تھا کہ استغاثہ سینئر ترین وکلاء کی ٹیم پر مشتمل ہے۔ معصوم بچی کو ہر حال میں انصاف دلایا جائے گا۔انہوں نے مزید کہا تھا کہ کیس میں کچھ پیچیدگیاں پیدا کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں جن کا میں فون پر خلاصہ نہیں کرسکتا۔ فاروقی نے کہا تھا کہ وہ محمد یوسف (متاثرہ بچی کے والد) کی طرف سے عدالت میں پیش ہو رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا 'استغاثہ کی طرف سے سپیشل پبلک پراسیکیوٹرس شری ایس ایس بسرا اور جگ دیشور کمار چوپڑا کیس کی پیروی کر رہے ہیں اور انہیں مجھ سمیت متعدد وکلاء بشمول شری کے کے پوری، شری ہربچھن سنگھ اسسٹ کر رہے ہیں۔ سپریم کورٹ میں اندرا جے سنگھ اور ان کی ٹیم کیس کو صحیح سے آگے بڑھا رہے ہیں'۔

واضح رہے کہ متاثرہ بچی کے والد نے گذشتہ برس نومبر میں اس کیس کی بدولت راتوں رات شہرت پانے والی خاتون وکیل دیپکا سنگھ راجاوت کو اس کیس سے فارغ کردیا۔ فارغ کیے جانے کی وجہ دیپکا راجاوت کی کیس میں مبینہ عدم دلچسپی بتائی گئی تھی۔ دیپکا راجاوت کا کیس سے ہٹائے جانے پر کہنا تھا کہ ان کے لئے پٹھان کوٹ عدالت میں ہر روز حاضر ہونا مشکل تھا۔


کرائم برانچ نے اپنی تحقیقات میں کہا ہے کہ آٹھ سالہ بچی کو رسانہ اور اس سے ملحقہ گاؤں کے کچھ افراد نے عصمت ریزی کے بعد قتل کیا۔ تحقیقات کے مطابق متاثرہ بچی کے اغوا، عصمت دری اور سفاکانہ قتل کا مقصد علاقہ میں رہائش پذیر چند گوجر بکروال کنبوں کو ڈرانا دھمکانا اور ہجرت پر مجبور کرانا تھا۔ تحقیقات میں انکشاف ہوا ہے کہ کمسن بچی کو اغوا کرنے کے بعد ایک مقامی مندر میں قید رکھا گیا تھا جہاں اسے نشہ آور ادویات کھلائی گئیں اور قتل کرنے سے پہلے اسے مسلسل درندگی کا نشانہ بنایا گیا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 25 May 2019, 10:10 PM