8 سالہ معصوم کا سفاکانہ قتل، ملک بے چین حکومت خاموش 

راہل گاندھی نے کٹھوعہ کے ملزم کو بچانے والوں کی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’’ایسے ہولناک تشدد کے ملزمین کو کوئی آخر کس طرح بچا سکتا ہے؟ کٹھوا میں آصفہ کے ساتھ جو ہوا وہ انسانیت پر ایک ظلم ہے۔‘‘

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آواز تجزیہ

آٹھ سال کی بچی کو یرغمال بنایا گیا، کئی لوگوں نے بار بار اس کی اجتماعی عصمت دری کی، اور پھر اس کا قتل کر دیا گیا۔ اس طرح کا گھناؤنا عمل کرنے والے شخص کے ساتھ آپ کیا کرنا چاہیں گے؟ یقیناً اسے ایسی سخت سزا دلانا چاہیں گے کہ مجرمین کو سبق حاصل ہو اور مہلوک بچی کے گھر والوں کو انصاف مل سکے۔ لیکن جموں و کشمیر کے اس ہولناک واقعہ میں متاثرہ کنبہ کو انصاف دلانے کی جگہ انسانیت کے دشمن ملزمین کو بچانے کے لیے مہم چھیڑے ہوئے ہیں۔ انسانیت کے یہ دشمن کوئی اور نہیں بی جے پی کے وزراء ہیں جو سڑکوں پر اتر رہے ہیں اور معصوم آصفہ کے قاتلوں کو سزا سے بچانے کی مہم چلائے ہوئے ہیں۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ سماجی تنظیموں سے لے کر فلم انڈسٹری تک آصفہ کے حق میں آواز بلند کر رہی ہے لیکن بی جے پی کے ساتھ مل کر جموں و کشمیر میں حکومت چلا رہی محبوبہ مفتی اس قتل کے تین مہینے بعد بھی صرف اتنا کہہ رہی ہیں کہ ’’چند افراد کی غیر ذمہ دارانہ حرکات اور بیانات سے قانونی کاروائی کو نہیں روکا جاسکتا ہے۔کیس کی مناسب طریقے سے پیروی کی جارہی ہے، تحقیقات تیزی سے ہورہی ہے اور متاثرین کو انصاف ملے گا۔‘‘ کتنی حیرانی کی بات ہے کہ ایک خاتون ہوتے ہوئے بھی وہ ان بی جے پی لیڈروں کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لے رہی ہیں جو انسانیت کو لگاتار شرمسار کر رہے ہیں۔

بی جے پی حکومت میں غنڈہ گردی اور بدعنوانی کی بات کوئی نئی نہیں ہے لیکن آصفہ قتل معاملہ میں جس طرح سے فروری مہینے میں ’ہندو ایکتا منچ‘ نے ملزم کے حق میں ’ترنگا مارچ‘ نکالا اور جس طرح ریاستی پولس کے اہلکار ان احتجاجیوں کے قدم سے قدم ملا کر چل رہے تھے، وہ شرمناک ہونے کے ساتھ ساتھ یہ سوچنے پر مجبور کرنے والا بھی ہے کہ ہندوستان کا مستقبل کن لوگوں کے ہاتھوں میں چلا گیا ہے۔ کیامحبوبہ مفتی بی جے پی اور آر ایس ایس جیسی طاقتوں کے ہاتھوں کا کھلونا بن چکی ہیں؟ اور یہ بھی سوچنے والی بات ہے کہ کیا برسراقتدار طبقہ ہندوستان میں صرف اعلیٰ طبقات کو فروغ دینے اور دیگر سبھی چھوٹے موٹے طبقات کو نیست و نابود کرنے کی منشا رکھتے ہیں؟ جموں و کشمیر پولس برانچ نے گزشتہ پیر کے روز چیف جیوڈیشیل مجسٹریٹ کی عدالت میں 15 صفحات کا جو فرد جرم داخل کیا ہے اس سے تو کچھ ایسا ہی معلوم پڑتا ہے۔

15 صفحات پر مبنی فرد جرم میں لکھا گیا ہے کہ ’’بکروال طبقہ کی بچی آصفہ کا اغوا، عصمت دری اور اس کا قتل علاقے سے اس پسماندہ طبقہ کو ہٹانے کی ایک سوچی سمجھی سازش کا حصہ تھا۔‘‘ اس رپورٹ نے کئی چیزیں لوگوں کے سامنے لا کر رکھ دیں اور مقامی عوام میں پیدا غصہ مزید بھڑک گیا۔ اب تو صورت حال یہ ہے کہ #JusticeforAsifa یعنی ’آصفہ کو انصاف‘ ہیش ٹیگ کے ساتھ مشہور و معروف ہستیوں نے آصفہ کے حق میں اور ملزمین کو بچانے کی کوشش میں سرگرم بی جے پی اور ہندو تنظیموں کے خلاف آواز اٹھانا شروع کر دیا ہے۔ کس قدر حیرت انگیز اور شرمناک ہے کہ سب کچھ واضح نظر آ رہا ہے پھر بھی شرپسند عناصر سینہ تانے آصفہ کے ہی خلاف کھڑے نظر آ رہے ہیں۔ نظیر مسعودی نام کے ایک ٹوئٹر ہینڈل سے کٹھوعہ بار ایسو سی ایشن کا ایک خط ٹوئٹ کیا گیا ہے اور انھوں نے لکھا ہے کہ ’’شرم کی کوئی حد نہیں۔ اس بیان کو پڑھیے جو بار ایسو سی ایشن کٹھوعہ کے ذریعہ جاری کیا گیا ہے۔ اب تصور کیجیے کہ کن حالات میں یہ ٹرائل ہو رہا ہے۔‘‘

جمہوری قدروں کے حامی حضرات جموں و کشمیر جا کر بھلے ہی آصفہ کو انصاف دلانے کی لڑائی نہیں لڑ رہے ہوں لیکن سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر سبھی متحد نظر آ رہے ہیں۔ فلمی ہستیوں میں جاوید اختر، سورا بھاسکر، تمنا بھاٹیا، نمرت کور، رینوکا سہانے، رنویر شوری، ویر داس وغیرہ نے زناکاروں کے خلاف اپنی ناراضگی ظاہر کی تو سماجی، سیاسی اور صحافی برادری سے تعلق رکھنے والے راہل گاندھی، راج دیپ سردیسائی، کیرتی آزاد، پریرنا بخشی، محمد کیف، گیتا پھوگٹ وغیرہ نے اسے ملک اور انسانیت کے لیے شرمناک قرار دیا۔ کچھ لوگوں نے تو اسے ’ہندوتوا آئڈیولوجی‘ قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف سخت احتجاج کی ضرورت پر زور دیا۔

کانگریس سربراہ راہل گاندھی نے کٹھوعہ عصمت دری اور قتل کے ملزمین کو بچانے کی کوشش کر رہی طاقتوں کی سخت تنقید کرتے ہوئے اپنے ٹوئٹ میں لکھا کہ ’’ایسے ہولناک تشدد کے ملزمین کو کوئی آخر کس طرح بچا سکتا ہے؟ کٹھوا میں آصفہ کے ساتھ جو ہوا وہ انسانیت پر ایک ظلم ہے۔‘‘

مشہور و معروف صحافی راج دیپ سردیسائی نے تو اپنے ٹوئٹ میں ملزم کے حق میں آواز اٹھانے والے لوگوں کو ہندو ماننے سے ہی انکار کر دیا ہے۔ انھوں نے لکھا ہے کہ ’’جو لوگ جموں عصمت دری معاملہ میں احتجاج کے دوران ’بھارت ماتا کی جے‘ اور ’جے شری رام‘ کا نعرہ لگا رہے ہیں وہ ہندو نہیں بلکہ ہندو مخالف ہیں۔ وہ ایک عظیم مذہب کی بے عزتی کر رہے ہیں۔‘‘

مشہور شاعر اور بالی ووڈ کی معروف ہستی جاوید اختر نے اُناؤ اور کٹھوعہ عصمت دری کے خلاف لوگوں کو متحد ہو کر آواز اٹھانے کی اپیل کرتے ہوئے اپنے سوشل میڈیا پر لکھا ہے کہ ’’جو بھی خواتین کے لیے انصاف چاہتے ہیں انھیں آگے آ کر اُناؤ اور کٹھوعہ میں عصمت دری کرنے والوں اور ان کو بچانے والوں کے خلاف اپنی آواز بلند کرنی چاہیے۔‘‘ فلم ’باہوبلی‘ سے شہرت حاصل کرنے والی تمنا بھاٹیا نے اس معاملے میں اظہارِ غم کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’جموں و کشمیر میں 8 سال کی معصوم سے عصمت دری ہوئی۔ ایک 16 سال کی لڑکی کے ساتھ اُناؤ میں عصمت دری ہوئی اور اس کے والد کو پیٹ پیٹ کر مار ڈالا گیا۔ یہ ملک کس طرف جا رہا ہے؟ سدھار کے لیے کتنی نربھیاؤں کی قربانی دینی ہوگی؟ ایک ملک جو اپنی خواتین کو محفوظ نہیں رکھ سکتا، وہ پسماندہ ذہنیت والا ہوتا ہے جس کے علاج کی ضرورت ہے۔‘‘

خواتین کے ایشوز پر اپنی بات کھل کر رکھنے والی مشہور اداکارہ رینوکا شہانے بھی کٹھوعہ عصمت دری اور قتل معاملہ سے ناراض ہیں اور لکھتی ہیں کہ ’’متاثرہ کا مذہب اور زناکار کا مذہب کبھی بھی کوئی معنی نہیں رکھنا چاہیے۔ زناکاری انسانیت کے خلاف جرم ہے۔ یہ خوفناک ہے کہ کچھ لوگ زانیوں کی بھی حمایت کر سکتے ہیں۔ یقین نہیں آتا، میں حیران ہوں۔ انسانیت، تیری روح کو سکون ملے۔‘‘ اداکارہ سورا بھاسکر اس معاملے پر اپنی رائے ظاہر کرتے ہوئے ٹوئٹ کرتی ہیں کہ ’’ایک 8 سالہ بچی کے ساتھ مندر میں اجتماعی عصمت دری کی جاتی ہے اور اس کا قتل کیا جاتا ہے کیونکہ وہ مسلم قبائلی طبقہ سے تعلق رکھتی ہے اور ہندو رائٹ ونگ کے غنڈے اسے اپنے علاقے سے بے دخل کرنا چاہتے تھے۔

اداکار رنویر شوری نے بھی اس پورے معاملے کو ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے ذریعہ اس مذہب کو بدنام کرنے والا عمل قرار دیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’’اگر ان لوگوں میں ہندو مذہب کے لیے تھوڑی بھی عزت ہے تو یہ ان لوگوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے جنھوں نے ایک مندر کا استعمال معصوم کو یرغمال بنانے، عصمت دری کرنے اور اس کا قتل کرنے کے لیے کیا۔ یہ بے حد خوفناک ہے کہ ’جے شری رام‘ اور ’بھارت ماتا کی جے‘ کے نعرے ان ظالمانہ جرائم کو انجام دینے والوں کی حمایت میں لگائے گئے۔ یہ ظالم جانور ہندوستان اور ہندو مذہب کو تباہ کر دیں گے۔‘‘ سوشل میڈیا پر بی جے پی، آر ایس ایس اور نام نہاد ہندوتوا کے رکھوالوں کے خلاف صدائے احتجاج تو بلند ہے ہی، کچھ کارٹون بھی خوب وائرل ہو رہے ہیں۔ ان میں سے ایک کارٹون ایسا ہے جس میں رام اور سیتا بیٹھے ہوئے ہیں اور سیتا کہتی ہے کہ ’’مجھے خوشی ہے کہ مجھے راون نے اغوا کیا، تمھارے کسی بھکت نے نہیں۔‘‘

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 12 Apr 2018, 7:53 PM