پابندیوں سے جَکڑے کشمیر میں خواتین کے سامنے نئی پریشانی، سینیٹری نیپکن کا فقدان

کشمیر میں پابندیوں کے سبب خواتین کو ان دنوں ایک نئی پریشانی کا سامنا ہے۔ انھیں سینیٹری پیڈ نہیں مل رہے جس کی وجہ سے ان کی صحت پر منفی اثر پڑ رہا ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

گلزار بھٹ

گزشتہ 14 ستمبر کو 22 سالہ رضوانہ دوڑی دوڑی اپنی دوست کے گھر پہنچی جو کہ اس کے گھر سے چند قدم دور تھا۔ سری نگر کے جنوب میں کوئی 60 کلو میٹر دور کاجی گنڈ کے پنجیت وان پورا میں رضوانہ کی دوست نے دروازہ کھولا تو اس نے ہڑبڑا کر پوچھا کہ ’’تمھارے پاس سینیٹری پیڈ ہے کیا؟‘‘ رضوانہ کی دوست نے اپنی اسٹیل کی الماری سے پرانے اخبار میں لپٹا ایک بنڈل نکالا اور رضوانہ کے ہاتھ میں تھما دیا۔ رضوانہ نے بتایا کہ ’’کشمیر میں پابندیوں کے سبب وہ سینیٹری پیڈ تک نہیں خرید پائی۔‘‘

قابل غور ہے کہ گزشتہ 5 اگست سے کشمیر وادی تقریباً پوری طرح بند ہے۔ اسی دن مرکز کی مودی حکومت نے جموں و کشمیر سے دفعہ 370 ختم کر کشمیر کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا تھا۔ ایک حصہ جموں و کشمیر کو اسمبلی والا مرکز کے ماتحت ریاست اور لداخ کو بغیر اسمبلی والا مرکز کے ماتحت ریاست قرار دے دیا تھا۔


کشمیر اس دقیانوسی سماج کا حصہ ہے جہاں ماہواری کی بات کرنا یا سینیٹری پیڈ کی کھلے عام خریداری کرنے کو برا تصور کیا جاتا ہے۔ اس بارے میں باتیں صرف خواتین کے درمیان سرگوشیوں میں ہی ہوتی ہیں۔ اننت ناگ کی غزالہ مصطفی بتاتی ہے کہ کس طرح اس کی ماں نے اسے پرانے کپڑے استعمال کرنے پر مجبور کیا کیونکہ وہ سینیٹری پیڈ خریدنے کے لیے گھر سے باہر نہیں جا سکتی۔

پڑوسی ضلع کلگام میں پوسٹ گریجویٹ کر رہی طالبہ صائمہ فاروقی نے کئی بار پیڈ خریدنے کی کوشش کی، لیکن ناکام رہی۔ حالانکہ کئی بار اس کے علاقے میں فارمیسی کی دکان چپکے سے آدھا شٹر گرا کر کھلتی ہے، لیکن وہ وہاں نہیں جا سکی۔ صائمہ بتاتی ہے کہ ’’میں نے تین بار کوشش کی، اور ایک بار تو میں دکان تک پہنچ بھی گئی تھی، لیکن وہاں ہر وقت سی آر پی ایف جوان کھڑے رہتے ہیں، اس لیے میں پیڈ نہیں خرید پائی۔‘‘


صائمہ کی عمر دراز ماں نے اس بارے میں اپنی بیٹی کو اس نامہ نگار سے کھل کر بات کرنے کی آزادی دی تھی۔ انھوں نے بتایا کہ لگاتار ہڑتال اور پابندیوں کے سبب وہ اور بھی بہت سی ضرورت کی چیزیں کسی اور دکان سے نہیں خرید پائے۔ انھوں نے بتایا کہ ’’مین مارکیٹ میں صرف کچھ ایک دکانیں ہی شام کے وقت آدھی کھلتی ہیں، لیکن وہاں جانا ہمیشہ من میں اندیشہ پیدا کرتا ہے۔ آپ کو نہیں معلوم کہ کب سیکورٹی فورس وہاں آ جائیں اور کوئی ہنگامہ یا تصادم شروع ہو جائے۔‘‘

وادی کے دیہی علاقوں میں خواتین سینیٹری نیپکن جیسی چیزیں کچھ خاص دکانوں سے ہی خریدتی ہیں۔ بہت سی خواتین نے بتایا کہ ایسی زیادہ تر دکانیں بند ہیں، اس سے خواتین کو عجیب قسم کی پریشانیوں سے دو چار ہونا پڑ رہا ہے۔ پلوامہ سے محض 6 کلو میٹر دور ایک گاؤں میں رہنے والی روبیہ کا کہنا ہے کہ ’’میں ہمیشہ شہر جا کر ایک خاص دکان سے پیڈ لاتی تھی، لیکن گزشتہ ایک مہینے سے میں شہر جا ہی نہیں پائی ہوں۔‘‘ اسکارف سے چہرے ڈھکے کالج جا رہی لڑکیوں کے ایک گروپ نے بھی روبیہ کی بات کی حمایت کی۔


وادی کی ایک ڈاکٹر مسرت جان کہتی ہیں کہ جب بھی اس قسم کے حالات ہوتے ہیں تو خواتین ماہواری کے دنوں میں پرانے کپڑوں وغیرہ کا استعمال کرتی ہے، جس سے ان کی صحت کو خطرہ پیدا ہوتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس طرح سے خواتین کو کئی بیماریوں کا شکار ہونے کا اندیشہ ہو جاتا ہے۔ وہ بتاتی ہیں کہ جلد کی بیماری سے لے کر سروائیکل کینسر تک ہونے کا اندیشہ رہتا ہے۔

اس بارے میں ایک سرکاری افسر نے پہچان چھپانے کی بات کہتے ہوئے دعویٰ کیا کہ وادی میں سینیٹری پیڈ کی کوئی کمی نہیں ہے۔ لیکن یہ مانا کہ کچھ خواتین کو انھیں خریدنے میں دقتیں ضرور ہو رہی ہیں۔ غور طلب ہے کہ اسی سال جولائی میں جموں و کشمیر کی آئی اے ایس افسر سہرش اصغر نے ماہواری کے دوران صحت کا خیال رکھنے کی بحث شروع کی تھی۔ انھوں نے لڑکیوں کے کئی اسکولوں میں سینیٹری پیڈ ڈسپنسر لگوائے تھے۔ وہ بڈگام میں ڈپٹی کمشنر کے طور پر تعینات تھیں۔

(اس رپورٹ میں شامل خواتین اور لڑکیوں کے نام بدل دیے گئے ہیں۔)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 25 Sep 2019, 10:10 AM