کشمیری والدین بچوں کو خود سے دور رکھنے پر مجبور، کہا ’باہر بھوکے رہ لینا پر کشمیر مت آنا‘

کشمیری بچے کیا کیا برداشت کر رہے ہیں، اس حقیقت کو جان کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ گجرات میں پڑھائی کر رہے اننت ناگ کے وسیم تناؤ کے سبب گزشتہ 25 دنوں میں اپنی تھیسس کے لیے ایک لفظ نہیں لکھ پائے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

تنویر احمد

ملک کے مختلف حصوں میں تعلیم حاصل کر رہے کشمیر کے ہزاروں بچے پریشان حال ہیں۔ 5 اگست کو دفعہ 370 ہٹائے جانے کے بعد سے ان کا اپنے گھر والوں سے رابطہ مشکل سے ہی ہو پا رہا ہے۔ ان بچوں کی دقت یہ بھی ہے کہ ان کے گھر والے انھیں پیسے بھی نہیں بھیج پا رہے ہیں کیونکہ ایک تو وہاں زیادہ تر مقامات پر بینکوں میں کام نہیں ہو رہے، دوسرے یہ کہ کشمیر میں روزگار پوری طرح سے ٹھپ رہنے کے سبب آمدنی ہی نہیں ہو پا رہی ہے۔ وہ لوگ آخر پیسے بھیجیں تو کہاں سے بھیجیں۔

ایسے حالات میں بچے کیا کیا برداشت کر رہے ہیں، اس حقیقت کو جان کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ گجرات میں تعلیم حاصل کر رہے اننت ناگ کے وسیم کی پورے اگست میں گھر والوں سے کوئی بات چیت نہیں ہوئی۔ اس ’درد‘ نے انھیں اتنا پریشان کیا کہ وہ ان 25 دنوں میں اپنے ایم فل کی تھیسس کے لیے ایک لفظ بھی نہیں لکھ پائے۔ انھوں نے کہا کہ ’’ذرا سوچیے، آپ ذہنی طور پر پریشان ہوں اور آپ کی اسی پریشانی پر کوئی جشن منائے اور آپ کو مٹھائیاں کھانے کو دے، تب آپ کے دل پر کیا گزرے گی؟‘‘


وسیم کی ستمبر کے پہلے ہفتے میں گھر والوں سے بات ہوئی، تب ان کے دل کو تھوڑی تسلی ملی۔ پھر ان کے گائیڈ نے انھیں بلا کر تھوڑا سمجھایا۔ اس کے بعد ہی وسیم اپنی پڑھائی کی طرف لوٹ پائے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ انھیں یہاں رجسٹریشن کرانے کے لیے کچھ پیسوں کی ضرورت تھی، لیکن وہ یہاں کسی سے مانگ نہیں سکتے تھے۔ پھر انھوں نے دہلی میں جامعہ کے پرانے دوست کو فون کیا۔ اس سے قرض مانگا اور پھر جا کر یہاں فیس بھر پائے۔ انھوں نے اپنے کالج کا نام رپورٹ میں نہ دینے کی گزارش کی ہے کیونکہ اس سے انھیں وہاں پریشانی ہو سکتی ہے۔

دہلی کے جامعہ ملیہ اسلامیہ میں صحافت کی تعلیم حاصل کر رہی عفرین روین کی پوری فیملی سری نگر میں رہتی ہے۔ وہ بتاتی ہیں کہ کشمیر میں جب یہ سب کچھ شروع ہوا تو وہ وہیں تھیں۔ وہ 15 اگست کو دہلی آئی۔ ان کا داخلہ ان کے ابو نے کرا دیا تھا لیکن یہاں آنے کے بعد انھیں ہاسٹل کی فیس جمع کرنی تھی جسے انھوں نے ایک دوست سے قرض لے کر ادا کیا۔ وہ کہتی ہیں ’’مجھے ہر وقت گھر کی ٹینشن لگی رہتی ہے۔ ہم یہاں سے کال بھی نہیں کر سکتے۔ انھیں بھی ہم سے سیکنڈ بھر بات کرنے کے لیے گھنٹوں محنت کرنی پڑتی ہے۔‘‘


سفیان کی رہنے والی بابر ہنائکو کہتی ہیں کہ میڈیاں یہاں یہ غلط فہمی پھیلا رہی ہے کہ کشمیر میں کمیونی کیشن سروس بحال کر دی گئی ہے۔ لیکن سچ یہ ہے کہ ایسا نہیں ہے۔ وہاں صرف لینڈ لائن خدمات بحال کی گئی ہیں۔ آج کے زمانے میں تو سب کے پاس موبائل ہے، لینڈ لائن رکھتا کون ہے؟ اور موبائل سروسز تو آج بھی بند ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’’میری تو چھوڑیے، میں تو دہلی میں ہوں، وہاں میرے نانا کو میری امی سے بات کرنے کے لیے ایک آفس میں جانا پڑا۔ چند منٹوں کی بات کے لیے اپنے گھنٹوں خراب کیے، جب کہ نانا کا گھر میرے گھر سے صرف 10 منٹ کی دوری پر ہے۔ وہاں اتنی پابندیاں ہیں کہ لوگ ایک دوسرے سے مل بھی نہیں پا رہے ہیں۔‘‘

بارہمولہ کے عامر مظفر بٹ کا کہنا ہے کہ ’’میں نے یہاں اپنا ایم اے مکمل کر لیا ہے۔ اب میں اپنے ابو سے یہ تک پوچھ نہیں پایا کہ بی ایڈ میں داخلہ لوں یا ایم فل میں؟ داخلہ کے لیے پیسے نہیں ہیں۔ اس کے لیے گھر والوں سے پیسے کس منھ سے مانگوں؟ آخر وہ کہاں سے لا کر دیں گے؟ میرے کئی دوست کالج کی فیس نہیں بھر پائے ہیں۔ پتہ نہیں، ان کا آگے کیا ہوگا۔ اور گھر جانے کے بارے میں سوچ ہی نہیں سکتے۔ اگر چلے بھی گئے تو وہاں گھروں میں قید ہو جائیں گے۔‘‘


دہلی کی ایک یونیورسٹی میں پڑھا رہے ایک اسسٹنٹ پروفیسر نے نام نہ شائع کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’’ہمیں تو تنخواہ ملتی ہے۔ لیکن ان بچوں کے بارے میں سوچیے جن کا ابھی داخلہ ہوا ہے۔ ایک طالب علم نے رات کو تین بجے اپنا اسٹیٹس اَپ ڈیٹ کیا کہ وہ لال قلع کے پاس کھڑا ہے اور اس کے پاس پیسے نہیں ہیں۔ دراصل اسے ممبئی جانا تھا۔ میں نے اسی وقت وہاں پہنچ کر اس کی مدد کی۔ ایک لڑکی نے کال کر بتایا کہ اس کا جامعہ میں داخلہ ہونا ہے، لیکن فیس نہیں ہے۔ تب ہم کچھ لوگوں نے جامعہ کے وائس چانسلر کو ایک خط لکھ کر کہا کہ کشمیری طلبا کے لیے فیس جمع کرنے کی تاریخ تھوڑی بڑھا دی جائے۔ لیکن یونیورسٹی بھی کہاں تک کرے گی؟ اور میری بھی مدد کرنے کی کچھ حد ہے۔‘‘

کم و بیش یہی حال سب جگہ ہے۔ جالندھر کی ایک مشہور یونیورسٹی میں پڑھ رہے شفیع احمد نے بتایا کہ اس کے والد سری نگر میں سبزی فروخت کرنے کا کام کرتے ہیں۔ وہ مہینے میں دو بار سری نگر سے اس کے اکاؤنٹ میں پیسے ڈلوایا کرتے تھے۔ اب وہاں سے پیسے نہیں آ رہے ہیں۔ بینک اکاؤنٹ خالی ہو گیا ہے۔ پی جی اور ڈھابے والے کا بقایہ دینا ہے۔ فی الحال تو وہ لوگ مطالبہ نہیں کر رہے، لیکن ایسا کتنے دن چلے گا؟


پی جی اور تعلیمی اداروں کے اندر رہ رہے کشمیری طلبا کا کہنا ہے کہ دوسری ریاستوں کے رہنے والے ان کے ساتھی طلبا کو بھی ان کے گھر والے ایک طے شدہ رقم بھیجتے ہیں۔ پہلے تو انھوں نے قرض دے کر کسی طرح مدد کی، لیکن اب دھیرے دھیرے ان لوگوں نے بھی ہاتھ کھڑے کرنے شروع کر دیے ہیں۔ ویسے بھی دوسری ریاستوں کے طلبا کشمیری طلبا سے کم ہی دوستی رکھتے ہیں۔ ایسے میں کشمیری طلبا کی دشواریوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔

نقش عبداللہ نام کے طالب علم نے کہا کہ ان کے گھر والے خود دقتوں میں ہیں اور ہمارے لیے بہت زیادہ فکرمند بھی ہیں کہ وہ پیسے بھیج نہیں پا رہے اور ہم گزارا کیسے کرتے ہوں گے۔ پنجاب میں پڑھائی کر رہے کشمیری طالب علم شاہد قریشی کے مطابق ’’پنجاب میں کشمیری طلبا کو کسی قسم کا کوئی خطرہ نہیں ہے، لیکن پیسے آنا بند ہو جانے سے انھیں زبردست مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ حالات بھی ایسے نہیں ہیں کہ وہ گھروں کو لوٹ سکیں۔ ایک دیگر کشمیری طالب علم نے بتایا کہ اس کے دادا نے لینڈ لائن فون پر اس سے کہا کہ بے شک پنجاب میں بھوکوں رہ لینا لیکن ان حالات میں ابھی تو اِدھر آنے کی سوچنا بھی نہیں۔‘‘


کشمیری طلبا کی اچھی تعداد رکھنے والے ایک ادارہ کے سینئر پرنسپل، جو کہ رائٹر بھی ہیں، نے بتایا کہ دفعہ 370 ہٹائے جانے کے بعد سے کشمیری طلبا ڈپریشن کے شکار ہیں۔ کشمیر میں اچانک سے چرمرا گئی معیشت نے ان لوگوں کی روز مرہ کی زندگی پر ہر لحاظ سے بے حد منفی اثر ڈالا ہے۔

ویسے شکر ہے کہ پنجاب کے کئی این جی او اور مذہبی ادارے ان کشمیری طلبا کی مدد کر رہی ہیں۔ حالانکہ یہ مدد لنگر (کھانا) یا راشن مہیا کرانے تک محدود ہے۔ جب کہ کھانے کے علاوہ بھی بے شمار ضرورتیں ہیں، لیکن ان اداروں کا بھی ایک بجٹ اور حد ہے۔


گرو کاشی یونیورسٹی کے منیجروں نے جموں و کشمیر ویلفیئر کمیٹی تشکیل دی ہے۔ یونیورسٹی کے ڈین ڈاکٹر ہرجندر سنگھ روز کے مطابق ’’یونیورسٹی کی جانب سے کشمیری طلبا کو یونیورسٹی میں ہاسٹل فیس جمع کرانے کی مدت میں مہلت دی گئی ہے۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 20 Sep 2019, 7:10 PM