بس میرے بچوں کو جیل سے باہر نکلوا دیجیے، میں اور کچھ نہیں چاہتا: مولانا اسد رضا حسینی

20 دسمبر کو مولانا اسد رضا کے ہاتھ پیر توڑ دئیے گئے اور سادات ہاسٹل کے درجنوں بچوں کے ساتھ انھیں حراست میں لے لیا گیا۔ 24 گھنٹے بعد مولانا کو تو چھوڑ دیا گیا لیکن 17 طلبا کو جیل بھیج دیا گیا۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

آس محمد کیف

’’ان کا چہرہ زرد پڑ چکا ہے۔ پیر سے اب بھی وہ چل نہیں پا رہے ہیں۔ بات چیت کم سے کم کرتے ہیں۔ ان کے ہاتھ میں پلاسٹر ابھی کچھ مہینوں تک مزید لگا رہنے والا ہے۔ میڈیا سے بالکل بات چیت نہیں کر رہے۔ کانگریس کے ریاستی نائب صدر اور مظفر نگر کے بااثر لیڈر پنکج ملک ان کے پاس بیٹھے ہیں۔ وہ پنکج سے کہتے ہیں کہ بس میرے بچوں کو جیل سے باہر نکلوا دیجیے، میں اور کچھ نہیں چاہتا۔‘‘

سادات ہاسٹل، مظفر نگر
سادات ہاسٹل، مظفر نگر

یہاں بات ہو رہی ہے مظفر نگر کے باشندہ مولانا اسد رضا حسینی کے بارے میں جو گزشتہ کچھ دنوں سے قومی اور بین الاقوامی خبروں میں بنے ہوئے ہیں۔ 70 سال کے مولانا آج خود کو بے حد مظلوم محسوس کر رہے ہیں۔ تکلیف اس حد تک ہے کہ وہ اپنے قریب بیٹھے ایک شخص سے کہتے ہیں ’’میں یتیم بچوں کی حفاظت کرنے میں ناکام ہوا ہوں۔‘‘ مولانا اسد رضا ساداتِ بارہہ علاقہ کی بے حد عزت دار شخصیت ہیں۔ دراصل سادات بارہہ مظفر نگر جانسٹھ کے آس پاس کے سیدوں کے بارہ گاؤں کا ایک گروپ ہے۔ ہندوستان کے سابق چیف الیکشن کمشنر نسیم زیدی سمیت تمام بڑی ہستیاں یہاں پیدا ہوئی ہیں۔

مولانا اسد رضا حسینی سادات بارہہ کے مظفر نگر واقع ایک تاریخی اسکول کے پرنسپل ہیں۔ اسی اسکول سے ملحق ایک دوسری عمارت سادات ہاسٹل ہے۔ 20 دسمبر کو سی اے اے کے مظاہرہ کے دوران مہاویر چوک اور میناکشی چوک کے ٹھیک بیچوں بیچ واقع ان کے اسکول میں پولس لاٹھی چارج سے بچنے کے لیے مظاہرہ کر رہی بھیڑ گھس آئی تھی۔ بھیڑ کے پیچھے یہاں پہنچی پولس نے اسکول کے بچوں کو بھی بری طرح سے پیٹنا شروع کر دیا۔ بچوں کو بری طرح پیٹتے دیکھ کر مولانا اسد رضا انھیں بچانے لگے تو انھیں بری طرح سے مارا گیا۔ ان کے ہاتھ پیر توڑ دئیے گئے۔ ان کے دفتر کو تہس نہس کر دیا گیا اور درجنوں بچوں کے ساتھ انھیں حراست میں لے لیا گیا۔ 24 گھنٹے حراست میں رکھنے کے بعد مولانا کو تو چھوڑ دیا گیا لیکن 17 طلبا کو جیل بھیج دیا گیا۔


2019 میں مولانا اسد رضا حسینی نائب صدر جمہوریہ وینکیا نائیڈو  سے ایوارڈ حاصل کرتے ہوئے
2019 میں مولانا اسد رضا حسینی نائب صدر جمہوریہ وینکیا نائیڈو سے ایوارڈ حاصل کرتے ہوئے

15 دن بعد بھی مولانا اسد رضا اسی تکلیف سے گزر رہے ہیں جس تکلیف سے حادثہ کے دن گزرے تھے۔ ان کے بیٹے محمد حسینی بتاتے ہیں کہ ’’ابو رات کو سو نہیں رہے ہیں۔ چوٹ صرف جسم پر نہیں لگی ہے، روح پر بھی لگی ہے۔ گھر میں کوئی کھانا نہیں کھا رہا ہے۔ ہمارے گھر میں ماتم کا ماحول ہے اور سبھی تکلیف میں ہیں۔ جب پولس میرے ابو کو پیٹ رہی تھی تو میرا چھوٹا بھائی احمد ان کے اوپر لیٹ گیا، اس نے بچانے کی پوری کوشش کی، ہم اپنا درد آپ کو نہیں بتا سکتے۔ اب ہم بس یہ چاہتے ہیں کہ بچوں کو چھوڑ دیا جائے۔‘‘


مولانا اسد رضا حسینی قدوئی نگر میں حسینی منزل میں رہتے ہیں۔ ان کے ڈرائنگ روم میں ان کی عیادت (مزاج پرسی) کرنے والوں کی آمد کا سلسلہ جاری ہے۔ شیعہ سماج کی معروف ہستی مولانا یعسوب عباس اور مولانا کلب جواد بھی ان سے ملاقات کر چکے ہیں۔ پولس نے ان سے بچوں کو چھوڑنے کا وعدہ کیا تھا لیکن اب تک ایسا ہوا نہیں ہے۔ یہاں موجود جنید رؤف بتاتے ہیں کہ جو بچے جیل بھیجے گئے ہیں ان میں زیادہ تر نابالغ اور یتیم ہیں۔

مولانا اسد رضا حسینی کے ساتھ مولانا کلب جواد و دیگر
مولانا اسد رضا حسینی کے ساتھ مولانا کلب جواد و دیگر

مولانا اسد رضا کے قریب ہی بیٹھے پڑوس میں رہنے والے کانگریس کے سابق رکن اسمبلی پنکج ملک کہتے ہیں کہ ’’پولس نے ظلم کی سبھی حدیں پار کر دی ہیں۔ لوگ پوری طرح ڈر گئے ہیں۔ حکومت لوگوں کے بنیادی حقوق پر حملہ کر رہی ہے، آوازوں کو بھی دبایا جا رہا ہے۔‘‘ وہ مزید کہتے ہیں کہ ’’مولانا اسد ایک معزز ہستی ہیں۔ وہ 70 سال کے ہیں۔ بچوں کے ساتھ زیادتی کی گئی ہے۔ پولس نے اسکول میں موجود ان کے دفتر میں جا کر بھی توڑ پھوڑ کی اور جس طرح سے بے رحمانہ پٹائی کی وہ ظلم کے سوا کچھ نہیں۔‘‘

سابق ریاستی وزیر داخلہ سعیدالزماں کے بیٹے سلمان سعید ’قومی آواز‘ کے نمائندہ کو بتاتے ہیں کہ ’’پولس مظالم اور تفریق کی ایسی مثال آپ کو ہندوستان میں کہیں نہیں ملے گی، سبھی حدیں پار کر دی گئی ہیں۔ پولس کے ساتھ ہندو تنظیموں کے کارکنان نے بھی پتھراؤ کیا، آگ زنی کی، میرے ادارے میں آگ لگا دی گئی، کار جلا دی گئی۔‘‘ وہ آگے کہتے ہیں کہ ’’میں ہورس رائڈنگ کا قومی کھلاڑی رہا ہوں۔ اب میرا بیٹا قومی کھلاڑی ہے۔ ہمارے گھوڑے کو بھی پیٹا گیا اور اس کی ٹانگ جلا دی گئی۔ حملہ کرنے والے تِلک لگائے ہوئے تھے۔ سب کی تصویریں اور ویڈیوز ہمارے پاس موجود ہیں۔ میں سیاسی فیملی سے ہوں۔ دادا رکن پارلیمنٹ رہے ہیں، والد وزیر داخلہ رہے ہیں لیکن پولس نے ہم پر مقدمہ 12 دن بعد درج کیا ہے۔ ناانصافی اور تفریق کی ایسی مثال کہیں نہیں ملے گی۔‘‘


سلمان سعید بچوں کے ساتھ ہوئی زیادتی سے کافی ناراض ہیں اور کہتے ہیں کہ ’’پولس اپنی غلطی ماننے کو تیار نہیں ہے۔ انتظامیہ ڈرانے دھمکانے کی کوشش کر رہی ہے۔ دراصل انھیں خوف ہے کہ زیر حراست بچے باہر آئیں گے تو ہم انھیں لے کر شکایت کریں گے اس لیے انھوں نے ’ڈیمیج کنٹرول ٹیم‘ کو کام پر لگایا ہے۔ یہ ٹیم متاثرین کے درمیان جا کر انھیں کہہ رہے ہیں کہ پولس کے خلاف وہ کوئی کارروائی نہ کریں۔ ہم بچوں کے باہر آنے کا انتظار کر رہے ہیں، ہم اپنی لڑائی قانونی طریقے سے لڑیں گے۔‘‘

مظفر نگر کے میناکشی چوک پر آر اے ایف (ریپڈ ایکشن فورس) کی فساد کنٹرول کرنے والی گاڑی اب بھی کھڑی ہے۔ سادات ہاسٹل میں اب تالا لگا دیا گیا ہے۔ مظفر نگر کے ایس پی سٹی ستپال پولس بربریت کے کسی بھی الزام کو ماننے سے بالکل انکار کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’پولس نے کسی طرح کی کوئی بربریت نہیں کی ہے۔ کسی بے گناہ کو بالکل بھی پریشان نہیں کیا گیا ہے۔‘‘ ایس پی سٹی کسی بھی الزام کو پوری طرح بے بنیاد ٹھہرا رہے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 03 Jan 2020, 3:45 PM