کٹھوعہ عصمت دری و قتل کیس، 15 جون تک سامنے آسکتا ہے عدالتی فیصلہ

مبین فاروقی نے دعویٰ کیا کہ کچھ عناصر کیس میں پیچیدگیاں پیدا کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں تاہم انہوں نے اس حوالے سے کوئی بھی تفصیلات فراہم کرنے سے معذرت ظاہر کی۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

یو این آئی

سری نگر: جموں و کشمیر کے ضلع کٹھوعہ کے رسانہ نامی گاﺅں میں گزشتہ برس جنوری میں پیش آئے آٹھ سالہ کمسن بچی کی وحشیانہ عصمت دری اور قتل کیس کا عدالتی فیصلہ 15 جون تک سامنے آسکتا ہے۔ واقعہ کے ملزمان کا 'ان کیمرہ' اور روزانہ بنیادوں پر ٹرائل ڈسٹرک اینڈ سیشن کورٹ پٹھان کوٹ میں جاری ہے اور وکیل استغاثہ کے مطابق متاثرہ بچی کا کیس انتہائی مضبوط ہے۔

متاثرہ بچی کے والد محمد یوسف پجوال کے ذاتی وکیل (پرائیویٹ کونسل) مبین فاروقی جو اسپیشل پبلک پراسیکیوٹرس سنتوک سنگھ بسرا اور جگ دیش کمار چوپڑا کو کیس میں اسسٹ کر رہے ہیں، نے یو این آئی اردو کو فون پر بتایا کہ جون کے وسط تک کیس کا فیصلہ سامنے آنے کی امید ہے اور ملزمان کو سزائیں ملنا ایک سو ایک فیصد طے ہے۔


انہوں نے بتایا 'جون کی 15 تاریخ تک کیس کا فیصلہ سامنے آنے کی امید ہے۔ اس وقت وکلاء صفائی اپنے گواہ عدالت میں پیش کر رہے ہیں۔ آپ کو معلوم ہی ہے کہ واقعہ کے ملزمان کا ان کیمرہ اور روزانہ بنیادوں پر ٹرائل جاری ہے'۔ مبین فاروقی نے بتایا کہ انہیں ایک سو ایک فیصد یقین ہے کہ ملزمان کو سزائیں سنائی جائیں گی۔

ان کا کہنا تھا 'استغاثہ کی طرف سے گواہان کی ایک معقول تعداد کو عدالت میں پیش کیا گیا جن کے بیانات قلمبند ہوچکے ہیں۔ ملزمان کے خلاف ٹھوس شواہد بھی عدالت میں جمع کیے جاچکے ہیں۔ ہمیں ایک سو ایک فیصد یقین ہے کہ ملزمان کو سزائیں سنائی جائیں گی۔ ہمارا کیس بہت ہی مضبوط ہے'۔


مبین فاروقی نے بتایا کہ استغاثہ سینئر ترین وکلاء کی ٹیم پر مشتمل ہے۔ معصوم بچی کو ہر حال میں انصاف دلایا جائے گا۔ انہوں نے بتایا 'میں خود کبھی کبھی عدالت جاتا ہوں۔ لیکن بسرا صاحب اور چوپڑا صاحب ہر روز عدالت میں حاضر رہتے ہیں۔ استغاثہ کی ٹیم سینئر ترین وکلاء پر مشتمل ہے۔ انہیں کرمنل کیسز لڑنے کا خاصہ تجربہ ہے'۔

فاروقی نے بتایا کہ وہ محمد یوسف (متاثرہ بچی کے والد) کی طرف سے عدالت میں پیش ہو رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا 'استغاثہ کی طرف سے اسپیشل پبلک پراسیکیوٹرس شری ایس ایس بسرا اور جگ دیشور کمار چوپڑا کیس کی پیروی کر رہے ہیں اور انہیں مجھ سمیت متعدد وکلاء بشمول شری کے کے پوری، شری ہربچھن سنگھ اسسٹ کر رہے ہیں۔ سپریم کورٹ میں اندرا جے سنگھ اور ان کی ٹیم کیس کو صحیح سے آگے بڑھا رہے ہیں'۔


مبین فاروقی نے دعویٰ کیا کہ کچھ عناصر کیس میں پیچیدگیاں پیدا کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں تاہم انہوں نے اس حوالے سے کوئی بھی تفصیلات فراہم کرنے سے معذرت ظاہر کی۔

ان کا کہنا تھا 'کیس میں کچھ پیچیدگیاں پیدا کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں جن کا میں فون پر خلاصہ نہیں کرسکتا'۔ واضح رہے کہ متاثرہ بچی کے والد نے گذشتہ برس نومبر میں اس کیس کی بدولت راتوں رات شہرت پانے والی خاتون وکیل دیپکا سنگھ راجاوت کو اس کیس سے فارغ کر دیا۔ فارغ کیے جانے کی وجہ دیپکا راجاوت کی کیس میں مبینہ عدم دلچسپی بتائی گئی تھی۔ دیپکا راجاوت کا کیس سے ہٹانے جانے پر کہنا تھا کہ ان کے لئے پٹھان کوٹ عدالت میں ہر روز حاضر ہونا مشکل تھا۔


دیپکا راجاوت کو اس کیس کی بدولت غیرمعمولی شہرت ملی تھی اور انہیں گزشتہ ایک سال کے دوران متعدد ایوارڈ حاصل ہوئے تھے۔ اس کے علاوہ انہیں متعدد کانفرنسوں میں شرکت کے لئے مدعو کیا گیا تھا۔ محمد یوسف نے پٹھان کوٹ عدالت کے احاطے میں دیپکا کو کیس سے ہٹانے کے معاملے پر نامہ نگاروں کو بتایا تھا کہ کیس کی اب تک 110 سماعتیں ہوچکی ہیں اور دیپکا راجاوت محض دو مرتبہ عدالت میں حاضر رہیں۔ ان کا کہنا تھا 'میں آج پٹھان کوٹ اس لئے آیا تھا کیونکہ دیپکا جی کو کیس سے ہٹانا تھا۔ کیس کی اب تک 110 سماعتیں ہوچکی ہیں۔ وہ اس دوران صرف دو مرتبہ عدالت میں حاضر رہیں۔ میری طرف سے (استغاثہ کی طرف سے) اس وقت کیس کی پیروی مبین فاروقی، بسرا صاحب، چوپڑا صاحب اور دوسرے کئی وکلاء کر رہے ہیں۔ کیس صحیح سمت میں آگے بڑھ رہا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ان کی جان کو خطرہ ہے۔ وہ یہ سب میڈیا میں کہتی ہیں۔ ہم ان کو کیوں خطرے میں ڈالیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نے اس کیس سے ہٹا دیا ہے۔ سپریم کورٹ میں اندرا جی (اندرا جے سنگھ) اور ان کی ٹیم کیس کو صحیح سے آگے بڑھا رہی ہیں'۔

قابل ذکر ہے کہ سپریم کورٹ نے 7 مئی 2018 ء کو کٹھوعہ کیس کی جانچ سی بی آئی سے کرانے سے انکار کرتے ہوئے کیس کی سماعت کٹھوعہ سے پٹھان کوٹ کی عدالت میں منتقل کرنے کی ہدایت دی تھی۔ اس وقت کے چیف جسٹس دیپک مشرا کی صدارت والی بنچ نے یہ حکم سنایا تھا۔ سپریم کورٹ کے حکم نامے کی روشنی میں پرنسپل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشنز جج کٹھوعہ سنجیو گپتا نے 22 مئی کو کٹھوعہ عصمت دری و قتل کیس کی پٹھان کوٹ منتقلی کے باضابطہ احکامات جاری کر دیئے تھے۔ سپریم کورٹ کے حکم پر 31 مئی کو ڈسٹرک اینڈ سیشنز جج ڈاکٹر تجویندر سنگھ کی عدالت میں کیس کی 'ان کیمرہ' اور روزانہ کی بنیاد پر سماعت شروع ہوئی جس کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔


کیس کے ملزمان میں واقعہ کے سرغنہ اور مندر کے نگران سانجی رام، اس کا بیٹا وشال، ایس پی او دیپک کھجوریہ، ایس پی او سریندر ورما، سانجی رام کا بھتیجا وشال، وشال کا دوست پرویش کمار منو، تحقیقاتی افسران تلک راج اور آنند دتا شامل ہیں۔ بتادیں کہ کیس کی ایک سماعت 16 اپریل کو سیشن جج کٹھوعہ سنجیو گپتا کی عدالت میں ہوئی تھی۔ جن ملزمان کو عدالت میں پیش کیا گیا تھا، نے جج موصوف کے سامنے اپنے آپ کو بے گناہ بتاتے ہوئے نارکو ٹیسٹ (جھوٹ پکڑنے والا ٹیسٹ) کرانے کا مطالبہ کیا تھا۔ تاہم متاثرہ کی فیملی کی جانب سے کیس کو چندی گڈھ منتقل کرنے کے لئے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا گیا تھا۔ عدالت عظمیٰ نے اپنی پہلی سماعت میں کیس کی کٹھوعہ عدالت میں سماعت پر روک لگائی تھی۔

ضلع کٹھوعہ کے تحصیل ہیرانگر کے رسانہ نامی گاﺅں کی رہنے والی آٹھ سالہ کمسن بچی جو کہ گجر بکروال طبقہ سے تعلق رکھتی تھی، کو 10 جنوری کو اس وقت اغوا کیا گیا تھا جب وہ گھوڑوں کو چرانے کے لئے نزدیکی جنگل گئی ہوئی تھی۔ اس کی لاش 17 جنوری کو ہیرا نگر میں جھاڑیوں سے برآمد کی گئی تھی۔ کرائم برانچ پولس نے مئی کے مہینے میں واقعہ کے سبھی 8 ملزمان کے خلاف چالان عدالت میں پیش کیا۔


کرائم برانچ نے اپنی تحقیقات میں کہا ہے کہ آٹھ سالہ بچی کو رسانہ اور اس سے ملحقہ گاؤں کے کچھ افراد نے عصمت ریزی کے بعد قتل کیا۔ تحقیقات کے مطابق متاثرہ بچی کے اغوا، عصمت دری اور سفاکانہ قتل کا مقصد علاقہ میں رہائش پذیر چند گوجر بکروال کنبوں کو ڈرانا دھمکانا اور ہجرت پر مجبور کرانا تھا۔ تحقیقات میں انکشاف ہوا ہے کہ کمسن بچی کو اغوا کرنے کے بعد ایک مقامی مندر میں قید رکھا گیا تھا جہاں اسے نشہ آور ادویات کھلائی گئیں اور قتل کرنے سے پہلے اسے مسلسل درندگی کا نشانہ بنایا گیا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔