بے لگام میڈیا پر جمعیۃ کی عرضی: جب تک عدالت حکم نہیں دیتی حکومت خود سے کچھ نہیں کرتی، چیف جسٹس

جمعیۃ علماء ہند کی عرضی پر سپریم کورٹ نے سماعت کرتے ہوئے کہا کہ ”جب تک ہم حکومت کو حکم نہیں دیتے حکومت کچھ نہیں کرتی“۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

یو این آئی

نئی دہلی: مسلسل زہر افشانی کرکے اور جھوٹی خبریں چلاکر مسلمانوں کی شبیہ کوداغدار اور ہندوؤں اورمسلمانوں کے درمیان نفرت کی دیوارکھڑی کرنے کی دانستہ سازش کرنے والے ٹی وی چینلوں کے خلاف داخل کی گئی جمعیۃ علماء ہند کی عرضی پر سپریم کورٹ نے سماعت کرتے ہوئے کہا کہ ” جب تک ہم حکومت کو حکم نہیں دیتے حکومت کچھ نہیں کرتی“۔ یہ تبصرہ سپریم کورٹ نے جمعیۃ علمائے ہند کی طرف سے پیش مشہور وکیل دشینت دوے کی جرح کے دوران کیا۔

مرکزی حکومت نے حلف نامہ داخل کرتے ہوئے جمعیۃ علماء ہند کی عرضداشت کو خارج کیئے جانے کی درخواست کی اور کہا کہ میڈیا کو خبریں نشر کرنے کی آزادی ہے جبکہ نیوز براڈ کاسٹ ایسو سی ایشن نے بھی حلف نامہ داخل کرتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ عرضی گذار کو سپریم کورٹ سے شکایت کرنے سے پہلے اس کے سامنے مبینہ فیک نیوز چینلز کی شکایت کرنا چاہئے تھی اور اگر وہ اس پر کارروائی نہیں کرتے تب انہیں عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا نا چاہئے تھا۔

اسی درمیان پریس کونسل آف انڈیا کی جانب سے پیش ہوئے سینئر ایڈوکیٹ پرتیش کپور نے کہا کہ ہم نے پچاس ایسے معاملات کا نوٹس لیا اور اس کی جانچ ہو رہی ہے اور جلد اس پر فیصلہ جاری کریں گے، ایڈوکیٹ بھیمانی نے بھی کہا کہ انہیں بھی فیک نیوز کی سو سے زائد شکایتیں موصول ہوئی ہیں اور وہ اس پر کارروائی کر رہے ہیں جس پر جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے بحث کرتے ہوئے سینئر ایڈوکیٹ دشینت دوے نے چیف جسٹس آف انڈیا اے ایس بوبڑے، جسٹس اے ایس بوپننا اور جسٹس رشی کیش رائے پر مشتمل تین رکنی بینچ کو بتایا کہ یہ لوگ کچھ نہیں کر رہے ہیں، دو ماہ سے زائد کا عرصہ گذر گیا ہے ابھی تک انہوں نے ایک شکایت پر مثبت کارروائی نہیں کی، بس عدالت میں بیان دے رہے ہیں کہ جانچ جاری ہے اور عدالت کا وقت ضائع کر رہے ہیں۔

ایڈوکیٹ دوے نے کہا کہ یہ تنظیمیں صرف ایڈوائزری تنظیمیں ہیں، یہ کوئی ایکشن نہیں لے سکتی ہیں، صرف حکومت ایکشن لے سکتی ہے لہذا عدالت کو چاہئے کہ حکومت کو حکم جاری کرے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ وہ ایکسپرٹ باڈی کی رائے طلب کر رہے ہیں اور ایکسپرٹ باڈی کی رائے آنے کے بعد کارروائی کی جائے گی۔

دوران بحث ایڈوکیٹ دشینت دوے نے عدالت کو بتایا کہ اپریل ماہ میں وزیر اعظم ہند نریندر مودی نے خودکہا تھا کہ کرونا بیماری کو مذہبی رنگ نہ دیا جائے اس کے بعد بھی نیوز چینلز نے اسے مذہبی رنگ دیا جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں ایکسپرٹ باڈی کی ضرروت ہے جو اس کی جانچ کریگی جس پر ایڈوکیٹ دوے نے کہا کہ ہم ابتک دو ماہ ضائع کرچکے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ وہ رپورٹ طلب کر رہے ہیں جس پر ایڈوکیٹ دوے نے کہا کہ رپورٹ طلب کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔

جمعیۃعلماء ہند کی جانب سے داخل کی گئی عر ضداشت جس میں سیکریٹری قانونی امداد کمیٹی گلزار اعظمی عرض گذار ہیں، پربحث کرتے ہوئے ایڈوکیٹ دشینت دوے نے عدالت کو بتایا کہ پریس کونسل آف انڈیا اور نیوز براڈ کاسٹرس ایسو سی ایشن صرف ان کے ممبران پر کارروائی کرسکتی ہے لیکن اس معاملے میں کئی ایک ایسے ادارے بھی ہیں جو ان کے ممبر نہیں لہذا ان پر کاررائی کون کریگا؟ اس لیئے حکومت اس معاملے میں فیک نیوز چینلز پر کارروائی کرے۔ایڈوکیٹ دشینت دے نے عدالت کو بتایا اس معاملے میں حکومت بھی کچھ نہیں کر رہی ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ یہ ہمارا تجربہ ہے کہ جب تک ہم حکومت کو حکم نہیں دیتے حکومت کچھ نہیں کرتی، چیف جسٹس نے یونین آف انڈیا کی نمائندگی کرنے والے ایڈوکیٹ تشار مہتا سے کہا وہ ان کو تنقید کا نشانہ نہیں بنا رہے ہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ عدالت جب تک حکومت کو حکم نہیں دیتی کچھ نہیں کرتی۔

اسی درمیان چیف جسٹس آف انڈیا نے نیوز براڈ کاسٹر ایسو سی ایشن کو نوٹس جاری کرتے ہوئے ان سے دریافت کیا کہ آیا یہ معاملہ ان کے پاس بھیجا جاسکتا ہے جس پر ایڈوکیٹ دوے نے کہا کہ عدالت کو اس معاملے پر خود فیصلہ کرنا ہوگا کیونکہ اس طرح سے صرف وقت ضائع ہورہا ہے جس پر عدالت نے ایڈوکیٹ دوے کو کہا کہ وہ ان کی عرضداشت پر سماعت دو ہفتہ کے لیئے ملتوی کررہے ہیں اور اس درمیان ایکسپرٹ باڈی اور دیگر اداروں کو ان کی رائے داخل کرنے کا حکم دیا۔دوران بحث ایڈوکیٹ دوے نے عدالت کو بتایا کہ صحافتی اصول کا تو یہ تقاضہ ہے کہ کوئی بھی خبر شائع یا نشرکرنے سے پہلے اس بات کی باضابطہ طورپر تصدیق کی جائے کہ آیا خبر میں جو کچھ کہا گیا ہے صحیح ہے یاغلط مگر میڈیا ایسانہیں کررہا ہے، انہوں نے کہا کہ ہماراقانون یہ بھی کہتاہے کہ اس طرح کی کوئی خبر شائع یا نشرنہیں کی جانی چاہئے جس سے کسی شخص یا فرقہ کی بدنامی یا دل آزاری ہویا جس سے لوگوں کے مذہبی جذبات مجروح ہوتے ہوں۔اس سے قبل گزشتہ سماعت کے موقع پر ایڈوکیٹ آن ریکارڈ اعجازمقبول نے عدالت کی توجہ ان دیڑھ سو چینلوں اور اخبارات کی جانب دلائی تھی جس میں انڈیا ٹی وی،زی نیوز، نیشن نیوز،ری پبلک بھارت،ری پبلک ٹی وی،شدرشن نیوز چینل اور بعض دوسرے چینلوں کی جانب دلائی تھی جنہوں نے صحافتی اصولوں کو تار تار کرتے ہوئے مسلمانوں کی دل آزاری اور قومی یکجہتی کو نقصان پہنچانے کی ناپاک سازش کی تھی۔

واضح رہے کہ جمعیۃ علمائے ہند کے صدر مولانا سید ارشد مدنی کا نظریہ رہا ہے کہ میڈیا کو ملک کی یکجہتی، سماجی آہنگی، بھائی چارہ، مذہبی رواداری اور ہندو مسلم کے درمیان منافرت پھیلانے کی اجازت نہیں دی جانی چاہئے۔ ملک کے میڈیا ایک طبقہ ہر واقعہ کو مذہبی رنگ دینے، ہندو مسلم کے اتحاد کو تار تار کرنے، مسلمانوں کو بدنام کرنے کی دانستہ کوشش کرتا رہا ہے۔ مارچ اور اپریل میں کے مہینے میں تبلیغی جماعت کے سلسلے میں میڈیا کا رویہ اس کی جیتی جاگتی مثال ہے۔میڈیا کا ایک طبقہ جان بوجھ کر کورونا کے بہانے مسلمانوں کو بدنام کرنے کی سازش کی اور مسلمانوں کے خلاف زہر اگلنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھا۔ اس لئے اگر بے لگام اور غیر ذمہ دار میڈیا پر شکنجہ نہیں کسا گیا تو یہ ملک کے لئے تباہ کن ہوگا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 07 Aug 2020, 6:11 PM