جامعہ تشدد: دہلی ہائی کورٹ سے شرجیل امام سمیت 9 افراد کو جھٹکا، ٹرائل کورٹ کا فیصلہ پلٹ دیا گیا، الزامات طے

دہلی ہائی کورٹ نے جامعہ تشدد معاملہ میں شرجیل امام، صفورا زرگر، آصف اقبال تنہا اور 8 دیگر ملزمان کو بری کرنے کے ٹرائل کورٹ کے فیصلے کو پلٹ دیا ہے۔

<div class="paragraphs"><p>شرجیل امام، فائل تصویر / آئی اے این ایس</p></div>

شرجیل امام، فائل تصویر / آئی اے این ایس

user

قومی آوازبیورو

نئی دہلی : دہلی ہائی کورٹ نے جامعہ تشدد معاملہ میں شرجیل امام، صفورا زرگر، آصف اقبال تنہا اور 8 دیگر ملزمان کو بری کرنے کے ٹرائل کورٹ کے فیصلے کو پلٹ دیا ہے۔ عدالت نے ان سبھی کے خلاف تعزیرات ہند (آئی پی سی) کی مختلف دفعات کے تحت الزامات طے کر دیئے۔ دہلی ہائی کورٹ نے 2019 کے جامعہ تشدد کیس میں 11 ملزمان کو بری کرنے کے ٹرائل کورٹ کے فیصلے کے خلاف پولیس کی طرف سے دائر نظرثانی کی درخواست پر اپنا فیصلہ سنایا۔ جسٹس سورنا کانتا شرما نے 23 مارچ کو درخواست پر اپنا فیصلہ محفوظ رکھا تھا۔

جسٹس سورنا کانتا نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ پرامن اجتماع کا حق معقول پابندیوں سے مشروط ہے اور تشدد کی کارروائیوں یا 'پرتشدد تقریر' کو تحفظ نہیں دیا جاتا۔ کچھ ملزمان کا حوالہ دیتے ہوئے عدالت نے کہا کہ بادی النظر جیسا کہ ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے۔ مدعا علیہ ہجوم کی پہلی قطار میں تھے۔ وہ دہلی پولیس مردہ باد کے نعرے لگا رہے تھے اور رکاوٹوں کو پرتشدد طریقے سے دھکیل رہے تھے۔‘‘


خیال رہے کہ دسمبر 2019 میں جامعہ ملیہ اسلامیہ میں شہریت ترمیمی قانون مخالف مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپوں کے بعد تشدد پھوٹ پڑا تھا۔ گزشتہ سماعت کے دوران ایڈیشنل سالیسٹر جنرل سنجے جین دہلی پولیس کی طرف سے پیش ہوئے، جبکہ مختلف وکیلوں نے امام، تنہا، زرگر، ابوذر، عمیر احمد، محمد شعیب، محمود انور، محمد قاسم، محمد بلال ندیم، شاہزر رضا خان اور چندا یادو کی طرف سے نمائندگی کی۔

ٹرائل کورٹ نے 4 فروری کو تمام 11 ملزمان کو بری کر دیا تھا، تاہم محمد الیاس کے خلاف غیر قانونی اجتماع اور ہنگامہ آرائی کے الزامات عائد کیے تھے۔ 23 مارچ کو جسٹس شرما کی بنچ کے سامنے جین نے دلیل دی تھی کہ ٹرائل کورٹ (ساکیت عدالت) نے تحقیقاتی ایجنسی کے خلاف بہتان اور سنگین تعصب پر مبنی تبصرہ کیا ہے اور اپنے دائرہ اختیار کی خلاف ورزی کی، اسے ریکارڈ سے حذف کر دیا جانا چاہیے۔


عدالت نے مشاہدہ کیا کہ پولیس اصل مجرموں کو پکڑنے میں ناکام رہی اور ان 11 ملزمان کو قربانی کا بکرا بنا دیا۔ ٹرائل کورٹ کے جج نے کہا ہے کہ آپ عدالت میں یہ ثابت کرنے کے لیے کوئی دستاویز نہیں لا سکے کہ یہ لوگ اس ہجوم کا حصہ تھے جس نے جرم کیا۔ انہوں نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ جب اتنے لوگ تھے تو صرف چند کو کیوں اٹھایا؟ مدعا علیہان انور، رضا خان، قاسم اور عمیر احمد کی طرف سے پیش وکیل ایم آر شمشاد نے کہا کہ ملزمان محض تماشائی تھے اور ٹرائل کورٹ نے انہیں بری کرنے کا درست حکم سنایا تھا۔

طالب علم کارکن اور جے این یو کے سابق طالب علم شرجیل امام کی طرف سے پیش ہونے والے ایڈوکیٹ طالب مصطفی نے عرض کیا کہ کسی بھی چارج شیٹ میں امام کے خلاف کوئی ویڈیو کلپ یا کسی گواہ کا ایک بھی بیان نہیں ہے۔ زرگر کی جانب سے پیش ہونے والی سینئر ایڈووکیٹ ریبیکا جان نے پولیس کی جانب سے ان کی شناخت کے طریقے پر سوال اٹھایا اور کہا کہ ویڈیو کلپ سے جس کی شناخت زرگر کے نام سے کی گئی اس کا چہرہ نقاب سے ڈھکا ہوا تھا اور استغاثہ کے پاس اس بات کی کوئی پختہ تصدیق نہیں ہے کہ وہ زرگر ہی تھیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔