’انڈیا‘ ریلی اپوزیشن اتحاد کی گواہ

بی جے پی نے کئی ریاستوں میں علاقائی پارٹیوں سے اتحاد کیا، وہاں اپنے قدم جمائے اور پھر اپنی ہی حلیف جماعتوں میں انحراف کی حوصلہ افزائی کر کے ٹوٹ پھوٹ کو ہوا دی

<div class="paragraphs"><p>’انڈیا‘ ریلی اپوزیشن اتحاد کی گواہ</p></div>

’انڈیا‘ ریلی اپوزیشن اتحاد کی گواہ

user

نواب علی اختر

کچھ دنوں قبل تک ’انڈیا‘ اتحاد میں انتشار ہی انتشار دکھائی دے رہا تھا یا کم از کم میڈیا کے ذریعہ ایسا دِکھانے کی کوشش کی جا رہی تھی لیکن حالیہ دنوں میں یہ اتحاد پٹری پر آتا نظر آیا اور رفتار اتنی تیز تھی کہ مخالفین بھی دم بخود رہ گئے۔ شاید اتحاد کے قائدین لوک سبھا انتخابات 2024 کے اعلان کا انتظار کر رہے تھے۔ جیسے ہی الیکشن کمیشن نے انتخابی تاریخوں کا اعلان کیا، گویا ’انڈیا اتحاد‘ میں نئی جان آ گئی۔ شش و پنچ میں مبتلا اپوزیشن پارٹیوں کے قائدین کانگریس کے ’ہاتھ‘ کے نیچے جمع ہوتے نظر آئے اور اتحاد کے مقاصد کو عملی جامہ پہنانے کا عہد کرتے ہوئے اتحاد کے پلیٹ فارم سے جمہوریت بچانے کے لئے ہر اقدام کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔

اس کی ایک بانگی آج قومی راجدھانی کے تاریخی رام لیلا میدان میں نظر آئی جہاں نفرت انگریزی اور تقسیم کرنے والی حکمراں پارٹی کی سیاست کو محبت اور جمہوری طریقے سے ختم کرنے کا اعلان کیا گیا۔ رام لیلا میدان میں ہوئی ’انڈیا اتحاد‘ کی عظیم ریلی میں کشمیر سے لے کر کنیا کماری تک سرگرم بیشتر سیاسی پارٹیوں کے قائدین نے حصہ لے کر ملک کے عوام کو نفرت اور ہٹلر شاہی کے خلاف جنگ کا پیغام دیا۔ دہلی میں یہ عظیم ریلی بظاہر وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال کی گرفتاری کے خلاف ہے مگر اس کے ذریعہ ووٹروں کو یہ بھی بتانا تھا کہ حکمراں پارٹی خواہ کتنا ہی اپوزیشن کو ڈرانے اور دھمکانے کا حربہ استعمال کرے، ہم ڈرنے والے نہیں ہیں کیونکہ ہمارے پاس عوامی طاقت ہے۔


اس ریلی سے اپوزیشن کی صفوں میں جو جوش و خروش اور اتحاد نظر آیا اور عوامی سطح پر حکومت کے خلاف اس کے تمام حربوں کے باوجود جو عوامی رائے محسوس کی گئی، اس نے حکمراں خیمے میں کھلبلی مچا دی ہے۔ یہی وجہ نظر آتی ہے کہ بی جے پی بوکھلاہٹ کا شکار ہونے لگی ہے۔ بی جے پی خود دو تہائی اکثریت کے دعوے کر رہی ہے لیکن ایک چھوٹی سی چھوٹی جماعت اور چھوٹے سے چھوٹے لیڈر کو بھی اپنے ساتھ ملاتے ہوئے سیاسی فائدہ حاصل کرنے کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دے رہی ہے۔ حد تو یہ ہو گئی کہ مہاراشٹر میں راج ٹھاکرے تک کو ساتھ ملاتے ہوئے بی جے پی اپنے امکانی نقصان کو پورا کرنے کی تگ و دو میں جٹی ہوئی نظر آ رہی ہے۔

تمام تر حربوں اور ہتھکنڈوں کے باوجود یہ ایک حقیقت ہے کہ بی جے پی کے داخلی حلقوں میں تشویش پائی جاتی ہے۔ وہ بلند بانگ دعوے تو کر رہی ہے تاکہ عوام میں ساکھ برقرار رکھ سکے لیکن بھگوا پارٹی بوکھلاہٹ کا شکار بھی ہوتی نظر آ رہی ہے۔ جس طرح 2018 میں گجرات میں اب کی بار 150 پار کا نعرہ دیا گیا تھا لیکن پارٹی 100 کا ہندسہ بھی چھو نہیں سکی تھی وہی صورتحال پارلیمانی انتخابات میں بھی ہو سکتی ہے۔ بی جے پی اسی صورتحال سے بچنے کے لیے بوکھلاہٹ میں اپوزیشن لیڈروں کے خلاف کارروائیوں پر انحصار کر رہی ہے لیکن اس کے باوجود جو قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں ان کے مطابق پارٹی اپنے دعووں کے کھوکھلے پن سے خود واقف ہے۔


اس بار جو انتخابات ہونے جا رہے ہیں وہ انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ اس کے نتائج انتہائی دور رس اثرات کے حامل ہو سکتے ہیں۔ ایسے میں ملک کے عوام کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ محض جذباتیت کا شکار ہونے یا کسی کے استحصال کا شکار ہونے کی بجائے سمجھ بوجھ اور فہم و فراست سے کام لیں۔ اس حقیقت سے ہر کوئی واقف ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی پارٹی ہونے کا دعویٰ کرنے والی بی جے پی اور اس کے قائدین عوام کے مذہبی جذبات کا استحصال کرتے ہیں۔ انہیں گمراہ کرتے ہیں اور ملک کے ماحول کو پراگندہ کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی جاتی ۔اس کے باوجود عوام رائے دہی کے وقت اس استحصال کا شکار ہو جاتے ہیں۔

آج ملک میں کئی طرح کی باتیں ہو رہی ہیں۔ کہیں اپوزیشن کا صفایا کر دینے کی بات ہو رہی ہے تو کہیں ’کانگریس مکت بھارت‘ کی بات ہو رہی ہے۔ کہیں عوامی حقوق چھین لئے جانے کی بات ہو رہی ہے تو کسی کو یہ اندیشے ہیں کہ ملک میں آئندہ انتخابات ہی نہیں کروائے جائیں گے۔ کہیں سے اقلیتوں کو نشانہ بنانے کی باتیں ہو رہی ہیں تو کہیں سے یہ اعلان کیا جا رہا ہے کہ بی جے پی دو تہائی اکثریت حاصل کر لیتی ہے تو پھر ملک میں دستور ہی تبدیل کر دیا جائے گا۔ جمہوری ملک میں اس طرح کی صورتحال انتہائی خطرناک کہی جا سکتی ہے۔ ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے اور جمہوری عمل کو مستحکم کرنے کے لیے عوام کو اپنی ذمہ داری کو پورا کرنا ہوگا۔


یاد ہوگا کہ 2014 میں بی جے پی نے مرکز میں اقتدار سنبھالتے ہی ’کانگریس مکت بھارت‘ کا نعرہ دیا تھا۔ اس نعرہ کے جھانسہ میں کئی علاقائی پارٹیاں آ گئیں جنہیں اپنی اپنی ریاستوں میں کانگریس سے مقابلہ درپیش تھا۔ بی جے پی نے نعرہ تو کانگریس مکت بھارت کا دیا تھا لیکن کانگریس کا صفایا کرنے کے دعوی کی آڑ میں در اصل علاقائی جماعتوں کا صفا یا شروع کر دیا گیا۔ کئی جماعتوں میں بغاوت کا زہر پھیلایا جس سے کئی علاقائی جماعتوں کا وجود ہی خطرے میں پڑ گیا۔ بی جے پی نے کئی ریاستوں میں علاقائی پارٹیوں سے اتحاد کیا، وہاں اپنے قدم جمائے اور پھر اپنی ہی حلیف جماعتوں میں انحراف کی حوصلہ افزائی کر کے ٹوٹ پھوٹ کو ہوا دی۔

اس کے عوامی نمائندوں کو توڑ کر اپنے ساتھ ملا لیا اور خود اپنا اقتدار قائم کر لیا۔ یہ اقتدار کی ہوس ہے جس کے لئے ملک میں ووٹرس کی رائے کے ساتھ مذاق کیا جا رہا ہے۔ بے شمار واقعات میں ارکان اسمبلی اور ارکان پارلیمنٹ ایک پارٹی کے ٹکٹ پر منتخب ہونے کے بعد دوسری پارٹی میں شامل ہو کر اقتدار کے مزے لوٹ رہے ہیں۔ مہاراشٹر میں جب ادھو ٹھاکرے کی قیادت والی شیو سینا نے بی جے پی کی بالادستی کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تو شرد پوار نے سیاسی بصیرت کو برائے کار لاتے ہوئے شیو سینا۔ این سی پی اور کانگریس پر مشتمل ایک اتحاد تشکیل دے کر ادھو ٹھاکرے کو وزیر اعلیٰ بننے کا موقع فراہم کیا جس نے بی جے پی کی سازشوں پر پانی پھیر دیا تھا۔


حالانکہ بی جے پی نے اپنا پرانا حربہ استعمال کرتے ہوئے ایک خاندان میں تقسیم کو ہوا دی اور جس پر کئی مقدمات درج تھے، اسے اپنے گروپ میں شامل کرنے کے بعد ’کلین چٹ‘ مل گئی۔ اس طرح مہاراشٹر میں ایک بار پھر بی جے پی دوسروں کے سہارے اپنا وجود باقی رکھنے کی جدوجہد کر رہی ہے۔ لیکن حالات بتاتے ہیں کہ ریاست کے حکمراں اتحاد میں سب کچھ ٹھیک ٹھاک نہیں چل رہا ہے۔ اس لئے بعید نہیں جلد ہی بی جے پی کی وجہ سے ریاست کی سیاست میں ایک اور تقسیم دیکھنے کو مل جائے۔ اگر ایسا ہوا تو یہ ووٹروں کے ساتھ بڑا دھوکہ اور عام انتخابات کے دوران بھگوا پارٹی کو اس کا بڑا خمیازہ بھگتنا پڑ سکتا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔