کملیش تیواری قتل: بھسماسُر بالآخر اپنے ہاتھوں خود کی ہلاکت کا سبب بن جاتا ہے

کملیش تیواری کا قتل اس حقیقت کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ اگر سماج میں نفرت و عناد کی آگ پھیلا دی جائے تو جلد یا بہ دیر اپنے وپرائے سب اس کے شکار ہونے لگتے ہیں

تصویر یو این آئی
تصویر یو این آئی
user

اعظم شہاب

یوپی کے اندر نظم و نسق کی بگڑتی ہوئی صورتحال پر سپریم کورٹ کا حالیہ تبصرہ لفظ بہ لفظ صادق آتا ہے کہ ” ایسا لگتا ہے کہ ریاستی حکومت چاہتی ہی نہیں ہے کہ وہاں قانون کا راج ہو۔ لگتا ہے وہاں جنگل راج ہے۔ ہم یوپی حکومت سے پریشان ہو گئے ہیں۔ ہر دن ایسا دیکھنے کو ملتا ہے کہ حکومت کی طرف سے پیش وکیلوں کے پاس مناسب ہدایات نہیں ہوتیں۔ پھر چاہے وہ دیوانی ہو یا فوجداری معاملہ “۔ ایسا اس لئے ہوا کہ یوگی جی کے انکاونٹر راج نے قانون کی بالا دستی کو نیست و نابود کردیا۔

بھسماسور بالآخر اپنے ہی ہاتھوں خود کی ہلاکت کا سبب بن جاتا ہے۔ کملیش تیواری کا قتل اس حقیقت کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ اگر سماج میں نفرت و عناد کی آگ پھیلا دی جائے، عدم رواداری کا بول بالا ہوجائے اور سماج دشمن عناصر کے دل سے قانون کی بالادستی کا خوف ختم ہوجائے تو جلد یا بہ دیر اپنے وپرائے سب اس کے شکار ہونے لگتے ہیں۔ دسمبر 2015 ءکے اوائل میں ہندو مہا سبھا کے سربراہ کملیش تیواری نے اہانتِ رسول کی مذموم کوشش اور اس کے خلاف اترپردیش کے دیوبند ، سہارنپور ، لکھنوسے لے کر مہاراشٹر کے اورنگ آباد تک میں احتجاجی مظاہرے ہوئے،جس کے بعد اسے گرفتار کرلیا گیا۔ 2016 کے اندر اترپردیش میں ریاستی انتخابات ہونے والے تھے، کملیش تیواری نے اس موقع پر سوچا ہوگا کہ اسلام وپیغمبراسلام کے خلاف توہین آمیز تبصرے کرنے سے وہ بی جے پی کا دل جیتنے میں کامیاب ہوجائے گا اور پارٹی اسے اسمبلی کے ٹکٹ سے نواز دے گی، لیکن احتجاج کی وجہ سے اس کی گرفتاری عمل میں آگئی اور وہ ایوانِ اسمبلی میں پہونچنے کے بجائے جیل کی سلاخوں کے پیچھے پہونچ گیا۔


اپنی گرفتاری کے خلاف اگست2016میں کملیش تیواری عدالت عظمیٰ پہنچ گیا۔ اس نے اپنی درخواست میں دعویٰ کیاہے کہ اسے اتر پردیش پولیس کی جانب سے قومی سلامتی ایکٹ (این ایس اے)کے تحت غیر قانونی طورپر حراست میں رکھا گیا ہے اور اس معاملے میں الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنوبنچ کے سامنے ایک درخواست دائر کی گئی تھی جس پر کوئی فیصلہ نہیں ہوا ہے۔ کملیش تیواری نے سپریم کورٹ میں گہار لگائی تھی کہ عدالت متعلقہ حکام کو یہ ہدایت جاری کرے کہ اس کی درخواست میں توسیع کے لئے مناسب رہنمااصول طے کرے۔ جسٹس دیپک مشرا اور جسٹس سی ناگپن کی ایک بنچ نے اس پر نوٹس لیتے ہوے کہاکہ ہمارے خیال سے قیدی کی درخواست پر فوری توجہ دی جانی چاہیئے اور اس پر فیصلے کے لئے بلا تاخیر قدم اٹھایا جانا چاہیئے ،چنانچہ ہمیں یقین ہے کہ ہائی کورٹ بھی اس سے آگاہ ہو گا اور وہ قیدی کی درخواست کا تصفیہ چار ہفتوں میں کرے گا۔

یوگی راج کے اندر کملیش تیواری گمنامی کے اندھیرے میں چلا گیا۔ اس نے ہندو مہا سبھا سے الگ ہوکر2017 میں اپنی ہندو سماج پارٹی بنالی۔17 ستمبر 2019کو کملیش تیواری کا لکھنومیں اس کے گھر پر ہی گلا ریت کر قتل کر دیا گیا اور گولی بھی ماری گئی۔جبکہ گھروالوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے گولی چلنے کی آواز نہیں سنی۔ اس کے سبب صوبے میں سیاسی ماحول گرما گیا نیز پولس کو چوکنا کردیا گیا۔تفتیش کرنے والے پولس کے دستے نے موقع واردات سے ایک ریوالور برآمدکیا ہے۔ اس کے پاس سی سی ٹی وی فوٹیج بھی ہے جس میں مبینہ طور پر قاتل بھاگتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ ایک بھیڑ بھاڑ والے علاقے میں کملیش تیواری کے قتل کو یوگی سرکار کی ناکامی کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے اہل خانہ نے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی ہے۔ کملیش تیواری کی لاش جب سیتا پور کے محمودآباد میں واقع اس کی رہائش گاہ پر پہنچی تو گھر والوں نے آخری رسومات ادا کرنے سے انکار کر دیا۔ تیواری کی بیوی کرن تیواری نے دھمکی دی کہ اگر وزیر اعلیٰ نہیں آئے تو وہ خودسوزی کر لیں گی۔لیکن یوگی جی تو سیتاپور نہیں گئے، البتہ کملیش تیوار ی کے گھروالوں کو لکھنوضرور بلالیا۔اس ملاقات کی تفصیل وہی ہے کہ گھروالوں نے قاتلوں کی پھانسی کی سزا کی مانگ کی اور یوگی جی نے انہیں بھروسہ دلا یا ہے۔لیکن اس ملاقات سے قبل جب مقتول کی بیوی کرن تیواری قاتلوں کے خلاف کارروائی کی خاطریوگی جی سے بات کرنا چاہتی ہے تو ساس نے راست طور پر یہ الزام لگایا کہ ایک مقامی بیجے پی لیڈر شیو کمار گپتا نے اس قتل کی سازش رچی ہے۔کرن تیواری کا قاتلوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ اور ساس کا بی جے پی لیڈر پر سازش رچنے کا الزام اتفاق سے ایک ہی وقت میں نیوزچینلوں میں آئے۔


اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کیا یوگی سرکار اپنی ہی پارٹی کے لیڈر کو گرفتار کرے گی؟ کملیش کے اہل خانہ اور عوام کی آ نکھوں میں دھول جھونکنے کی خاطر گجرات اے ٹی ایس کے ذریعہ گجرات کے سورت شہر سے تین مشتبہ لوگوں کو اے ٹی ایس نے گرفتار کرلیا ہے۔ حکومت نے کمال سرعت کا مظاہرہ کرتے ہوے مولانا شمیم پٹھان ، فیضان پٹھان اور محسن شیخ کو گرفتار کرلیا ہے۔ یہ انتظامیہ کا پرانا حربہ ہے کہ عوام کا غم و غصہ کم کرنے کے لیے کسی کو بھی گرفتار کر لو، برسوں تک مقدمہ میں ٹال مٹول کرو اور بالآخر ثبوتوں کی کمی کے سبب اس کو رہا کروا دو۔ یہ اس لئے ہوتا ہے کہ ہمارے ملک میں کسی کو غلط اور بیجاگرفتار کرنے والوں کو سزا نہیں بلکہ انعام واکرام سے نوازا جاتا ہے۔یہ الگ بات ہے کہ سوشل میڈیا پر گجرات کے سورت سے تین لوگوںکی گرفتاری کا مذاق اڑایا جارہا ہے۔ فیس بک پر ایک یوزر برجیش چندرا جو پیسے جرنلسٹ ہیں، ان کا کہنا ہے کہ ’ کملیش تیواری کو قتل کرکے ان کے قاتل جس سرعت کے ساتھ محض 12گھنٹے میں گجرات کے شہر سورت پہونچ گئے، اسے برقرار رکھئے، بلیٹ ٹرین کی ضرورت نہیں پڑے گی‘۔

کملیش تیواری قتل: بھسماسُر بالآخر اپنے  ہاتھوں خود کی ہلاکت کا سبب بن جاتا ہے

جبکہ دوسری جانب اے بی پی نیوز چینل پر کملیش کی ماں کوسُم تیواری یوگی جی پر قتل کا الزام عائد کررہی تھیں تو نیوز چینل کے اینکر ان کے منہ میں اپنی بات ڈالنے کی کوشش کررہے تھے۔ کوسم تیواری نے اپنی بات میں ہندو مسلم کی کوئی بات نہیں کی، جبکہ اینکر سمیت اوستھی اسے ہندو مسلم کا رنگ دینے کی کوشش کرنے لگے۔ جس پرکملیش کی ماں نے اوستھی کو ٹوکا بھی۔ لیکن اوستھی اسے ہندومسلم تنازعہ بنانے کی کوشش میں لگے رہے۔ یعنی کہ کملیش کا کوئی قاتل کوئی بھی ہو، اسے کسی نے بھی قتل کرایا ہو، گجرات اے ٹی ایس کی مانند ہماری میڈیا نے بھی یہ پہلے سے طئے کرلیا ہے کہ یہ کام کسی مسلمان کا ہے اور اے بی پی نیوز کو اس میں ہندومسلم اینگل بھی مل گیا۔اسے کہتے ہیں نیوزچینل کی رپورٹنگ اور اسے کہتے ہیں جرنلزم۔ رویش کمار جےس لوگ بیوقوف ہیں جو سچائی سچائی کی رٹ لگاتے رہتے ہیں لیکن بین السطور اپنی بات تک نہیں کہہ پاتے۔


اے بی پی نیوز پرکملیش کی ماں اور اینکر اوستھی کی ویڈیو اس لنک پر دیکھی جاسکتی ہے۔

زعفرانیوں کی باہمی کشمکش میں کملیش تیواری کا قتل کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔ دس دن قبل ۸کتوبرکو دیوبند میں بی جے پی لیڈر چودھری یشپال سنگھ کو بھی اسی طرح گولی مار کر ہلاک کردیا گیا۔ اس کے دو دن بعد10 اکتوبرکو بستی میں سابق اسٹوڈنٹس رہنما کبیر تیواری گولی باری کا شکار ہوئے اور پھر تین دن بعد دیوبند کے بی جے پی کارپوریٹر دھارا سنگھ کو گولیوں سے بھون دیا گیا۔ ان تمام لوگوں کے موت کی خبر چونکہ دب گئی اس لیے اے ٹی ایس نے کسی کو گرفتار کرنے کی زحمت نہیں کی۔ یوپی کے اندر نظم و نسق کی بگڑتی ہوئی صورتحال پر سپریم کورٹ کا حالیہ تبصرہ لفظ بہ لفظ صادق آتا ہے کہ ” ایسا لگتا ہے کہ ریاستی حکومت چاہتی ہی نہیں ہے کہ وہاں قانون ہو۔ لگتا ہے وہاں جنگل راج ہے۔ ہم یوپی حکومت سے پریشان ہو گئے ہیں۔ ہر دن ایسا دیکھنے کو ملتا ہے کہ حکومت کی طرف سے پیش وکیلوں کے پاس مناسب ہدایات نہیں ہوتیں۔ پھر چاہے وہ دیوانی ہو یا فوجداری معاملہ “۔ ایسا اس لئے ہوا کہ یوگی جی کے انکاونٹر راج نے قانون کی بالا دستی کو نیست و نابود کردیا۔

(اعظم شہاب)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 20 Oct 2019, 8:30 PM